021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
DSP فنڈ کے نفع کا حکم
80075.62خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

مَیں آرمی سے ریٹائرڈ ہوا ہوں۔ ہماری تنخواہ سے ماہانہ DSP فنڈ کی کٹوتی ہوتی تھی، جو بعد میں منافع کے ساتھ واپس ہو جاتا ہے۔ جب میری سروس کے دس سال گزرچکے تھے، تو مَیں نے یہ سرٹیفکیٹ دیا تھا کہ مجھے انٹرسٹ نہیں چاہیے، لیکن مجھے پنشن کے وقت میرے حساب سے اصل رقم کے علاوہ چار لاکھ روپے زیادہ ملے ہیں۔ ان میں سے دو لاکھ روپے خرچ ہوچکے ہیں، جبکہ باقی دو لاکھ روپے ابھی بھی میرے پاس موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ چار لاکھ روپے میرے لیے استعمال کرنا جائز ہے یا انہیں صدقہ کرنا ضروری ہے؟ کیا یہ سودی رقم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

DSP فنڈ کے نام سے ملازمین کی تنخواہ میں سے جو رقم کاٹی جاتی ہے، چاہے وہ حکومت کی طرف سے لازمی ہو یا ملازم کی اپنی مرضی سے، وہ رقم وصول کرنے سے پہلے ملازم کی ملکیت نہیں ہوتی، بلکہ ادارہ اپنی طرف سے ملازم کے لیے یہ رقم فنڈ میں جمع کرکے سرمایہ کاری کرتا ہے، اور اس سے جو نفع حاصل ہوتا ہے، اس کو جمع شدہ رقم کے ساتھ ملاکر ریٹائرمنٹ کے وقت ملازم کو دیا جاتا ہے۔ یہ نفع ملازم کے لیے لینا جائز ہے، اگرچہ ادارے نے ناجائز طریقے سے اس کو کمایا ہو؛ کیونکہ یہ نفع ادارے کی طرف سے ملازم کو بطور احسان یا اجرت کا حصہ بناکر دیا جاتا ہے، اس لیے یہ سود کی تعریف میں نہیں آتا۔ لہٰذا آپ کو جو چار لاکھ اضافی رقم ملی ہے، وہ آپ کے لیے حلال ہے۔

حوالہ جات
رد المحتار (18/243):
"وأما بيع حظ الإمام، فالوجه ما ذكره من عدم صحة بيعه، ولا ينافي ذلك أنه لو مات يورث عنه؛ لأنه أجرة استحقها، ولا يلزم من الاستحقاق الملك، كما قالوا في الغنيمة بعد إحرازها بدار الإسلام، فإنها حق تأكد بالإحراز، ولا يحصل الملك فيها للغانمين إلا بعد القسمة ... ثم لا يخفى أنها لا تملك قبل قبضها فلا يصح بيعها."
الأشباه والنظائر (ص:112):
"إذا كان غالب مال المهدي حلالا، فلا بأس بقبول هديته، وأكل ماله ما لم يتبين أنه من حرام. وإن كان غالب ماله الحرام لا يقبلها، ولا يأكل إلا إذا قال: إنه حلال ورثه أو استقرضه."
تبيين الحقائق (5/106):
"قال رحمه الله: (والأجرة لا تملك بالعقد، بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن منه) أي لا تملك الأجرة بنفس العقد، سواء كانت الأجرة عينا أو دينا. وإنما تملك بالتعجيل أو بشرط التعجيل أو باستيفاء المعقود عليه، وهي المنفعة، أو بالتمكن من استيفائه بتسليم العين المستأجرة في المدة."

محمد مسعود الحسن صدیقی

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

17/رمضان المبارک/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مسعود الحسن صدیقی ولد احمد حسن صدیقی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب