021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
خریدار کی اجازت کے بغیر دوسری جگہ سودا کرنے کا حکم
80057.62خرید و فروخت کے احکامبیع فاسد ، باطل ، موقوف اور مکروہ کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ مسمی عامر ہارون سے مَیں نے ایک چھت خریدی، اور قیمت کی ادائیگی کے لیے شیڈول رکھا۔ مَیں کچھ مجبوریوں کی وجہ سے مقررہ وقت پر رقم ادا کرنے سے قاصر رہا، لیکن تاخیر کے ساتھ ادا کرتا رہا۔ چھت کی کل قیمت ایک کروڑ پچیس لاکھ تھی۔ مَیں نے 90 لاکھ ادا کیے تھے کہ مالک نے مجھے بتائے بغیر آگے دوسری پارٹی کے ساتھ سودا طے کر لیا۔ قرآن و سنت کی روشنی میں مجھے اس مسئلے کا جواب عنایت فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ جب عقلمند اور خرید و فرخت کی تمییز رکھنے والے فروخت کنندہ اور خریدار کسی چیز کی خرید و فروخت کے بارے  میں ایجاب و قبول (معاہدہ) کرلیتے ہیں، تو وہ چیز فروخت کنندہ کی ملکیت سے نکل جاتی ہے، البتہ اگر فروخت کنندہ طے شدہ قیمت کی مکمل ادائیگی ہونے تک بیچی جانے والی چیز اپنے پاس رکھنے کی شرط لگا لیتا ہے، تو اس شرط کی پاسداری کرنا خریدار کے لیے ضروری ہے۔ لیکن اس شرط کی وجہ سے فروخت کنندہ کو صرف بیچی جانے والی چیز پر خریدار کو اُس وقت تک قبضہ نہ دینے کا اختیار ہوتا ہے جب تک وہ مکمل قیمت ادا نہ کرلے۔ اس کے برخلاف فروخت کنندہ کا ایسا تصرف جس کی وجہ سے خریدار کو نقصان پہنچتا ہو، شرعاً معتبر نہیں ہے۔

لہٰذا سوال میں ذکر کردہ صورت میں عامر ہارون کا آپ کو بیچی جانے والی چھت کسی اور کو فروخت کر دینا شرعاً درست نہیں ہے، اور عامر ہارون نے دوسرے خریدار سے خرید و فروخت کا جو معاہدہ کیا ہے، وہ آپ کی اجازت پر موقوف ہے۔ اگر آپ اس کی اجازت دے دیتے ہیں، تو عامر ہارون پر لازم ہے کہ جتنی قیمت (90 لاکھ روپے) آپ ادا کرچکے ہیں، وہ آپ کو ادا کرے۔ لیکن اگر آپ دوسرے خرید و فروخت کے معاہدے کی اجازت نہیں دیتے تو پھر وہ معاملہ شرعاً باطل ہوگا، لہٰذا دوسرا خریدار اپنا نقصان عامر ہارون سے وصول کرنے کا پابند ہوگا۔

حوالہ جات
فقه البيوع (1/28):
"ركنه [البيع] عند الحنفية: الإيجاب والقبول فقط ... ذهب الحنفية والمالكية إلى أن العقد يلزم الطرفين بمجرد تمام الإيجاب والقبول، ولا يكون لأحدهما الخيار في فسخه إلا بخيار الشرط، أو خيار الرؤية، أو خيار العيب، أو خيار النقد وغيره."
صحيح البخاري (3/64):
عن ابن عمر رضي الله عنهما، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، أنه قال: «إِذَا تَبَايَعَ الرَّجُلاَنِ، فَكُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُما بِالخيَارِ مَا لم يَتَفَرَّقَا، وَكَانَا جميعًا، أَوْ يخيِّرُ أَحَدُهُمَا الآخَرَ، فَتَبَايَعَا عَلى ذَلِكَ، فَقَدْ وَجَبَ البَيْعُ، وَإِنْ تَفَرَّقَا بَعْدَ أَنْ يَتَبَايَعَا وَلم يَتركْ وَاحِدٌ مِنْهُما البَيْعَ، فَقَدْ وَجَبَ البَيْعُ».
صحيح البخاري (3/192):
عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: «نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ... أَنْ يَسْتَامَ الرَّجُلُ عَلى سَوْمِ أَخِيهِ».
فقه البيوع (1/125):
"أما النهي عن السوم على سوم أخيه، فمحمله عند الجمهور بعد استقرار الثمن، وركون كل واحد منهما إلى الآخر."
فقه البيوع (1/210):
"قد ذكر أصحاب القوانين الوضعية في جملة الأمور المفوّتة للتراضي: "الخطأ" أو "الغلط" ... وبما أن أنواع الخطإ وجزئياته مختلفة ... ونريد أن نذكر أنواع الخطإ في جزئيات آتية ... الاستحقاق: وهو أن يشتري زيد من عمرو على اعتقاد أنه هو المالك، ثم يتبين بالبينة أن المالك الحقيقي هو خالد، وليس عمروا، فقد ذكر الفقهاء حكمه في باب الاستحقاق بتفصيل. والموقف المختار عند الحنفية أن البيع لا ينفسخ بمجرد ثبوت الاستحقاق، بل يبقى موقوفا على إجازة المستحِق إلى أن يقبض المستحِق (المالك الحقيقي) المبيع، ويرد البائع الثمن إلى المشتري. فإن أجاز المالك الحقيقي البيع، استمر المشتري على ملكه، ورجع المالك الحقيقي بالثمن على البائع. وإن لم يجزه، فالبيع مفسوخ، ويستحق أن يقبض المبيع من المشتري، ويرجع المشتري بالثمن على البائع."

محمد مسعود الحسن صدیقی

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

18/رمضان المبارک/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مسعود الحسن صدیقی ولد احمد حسن صدیقی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب