021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والدہ کا زندگی میں اپنی جائیداد تقسیم کرنا
80064ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ :

میرے والد نے مجھے ایک مکان خرید کر مالک بنایا تھااور میں اپنے چار بیٹوں کے ساتھ اس مکان میں رہائش پزیرہوں۔میں اپنی زندگی میں اس مکان کا بٹوارہ کرنا چاہتی ہوں،جس کے لیے میں اس مکان کے چھ حصے کرناچاہتی ہوں،جس میں ایک حصہ میرا اور ایک حصہ میرے شوہر کا اور بقیہ چار حصے چاربیٹوں کے درمیان برابر تقسیم کرنا چاہتی ہوں،قرآن وحدیث کی روشنی میں یہ وضاحت فرمائیں کہ کیا یہ تقسیم درست ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا خود مالک ہوتا ہے، ورثاءکا حق اس کے ساتھ مُورث کی موت کے ساتھ متعلق ہوتا ہے۔

لہذازندگی میں جائیداد کی تقسیم چونکہ ہبہ  (گفٹ) کے حکم میں ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ مذکوہ مکان میں ہر  ایک کا حصہ اس کے نام کرنےکے  ساتھ ساتھ باقاعدہ اس کے قبضہ میں بھی دیاجائےبصورت دیگریعنی صرف نام کروایا جائےاور قبضہ نہ دیا جائےتو ایسا کرنے سے ہبہ مکمل نہیں ہوگا،مکان بدستور دینے والے کی ملکیت میں ہی رہےگااور انتقال کے بعد مذکورہ مکان میراث کاحصہ بن کر سب ورثاءمیں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔

حوالہ جات
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (7/ 288)
 يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين وإن وهب ماله كله الواحد جاز قضاء وهو آثم كذا في المحيط.
البناية شرح الهداية (10/ 169)
(وهبة المشاع فيما لا يقسم جائزة) ش: معناه هبة المشاع لا يحتمل القسمة جائزة؛ لأن المشاع غير مقسوم، فيكون المعنى ظاهرا ووهبت النصيب غير المقسوم فيما هو غير مقسوم، وذلك مستنكر ودفعه بما ذكرنا، فافهم.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 444)
وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم» فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى وقال محمد: ويعطي للذكر ضعف الأنثى.

عدنان اختر

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

۱۷؍رمضان المبارک  ؍۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عدنان اختر بن محمد پرویز اختر

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب