021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دادی کا مکان والد کے نام لکھنے کا حکم
80074ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

میرا جو گھر ہے اس کی زمین صرف  میری دادی جان کے نام پر تھی، اس کے علاوہ مکان کی تعمیر و ترقی پر جو بھی سرمایہ آیا وہ ہم نے خود کیا ہے  ۔ہم 30 سال سے اس مکان  میں رہ رہے ہیں ۔دادی جان میرے والد صاحب جو کہ سب سے چھوٹے بیٹے تھے ،ان کے ساتھ رہتی تھی تھیں۔میرے والد صاحب کی کوئی سرکاری ملازمت نہیں تھی اور کاروباری طور پر بھی وہ سیٹ نہیں تھے ، دوسرے بھائیوں کی نسبت وہ کافی غریب تھے ۔دوسرے بھائی مالی لحاظ سے بہتر تھے،  میری دادی جان کا یہ فیصلہ تھا کہ یہ گھر میں اپنے بیٹے کو ہبہ کرتی ہوں ،یہ میری  چھوٹے بیٹے کا  ہے ، وجہ یہ تھی  میرے والد صاحب کے حالات  اچھے نہیں تھے اور وہ خدمت گار بھی تھے ۔دادی جان کا یہ فیصلہ  کسی کو نقصان پہنچانے کی نیت سے نہیں تھا   ۔ دادی جان نے ایک سٹام پیپر پر بھی یہ لکھ کردے دیا تھا ۔

آج تک ہم اسی گھر میں رہ رہے ہیں،تمام تایا جان بھی فوت ہو چکے ہیں،ان کی اولاد بھی ہے،آج تک کسی نے بھی اپنے حصے کا مطالبہ نہیں کیا، کیوں کہ تمام اخراجات ہم نے ہی کیےہیں اور قبضہ بھی شروع سے ہمارا ہے  ۔ اس کے علاوہ تمام خاندان والے بھی اس بات کے گواہ ہیں جس وقت یہ سب کچھ ہوا اس وقت  رجسٹری ہمارے پاس موجود نہیں تھی اگر رجسٹری ہمارے پاس ہوتی تو دادی وہ والد صاحب کے نام کروا دیتیں۔ہم نے بینک سے لون لیا تھا  ہماری رجسٹری بینک میں چلی گئی تھی۔ اسی دوران دادی جان کی وفات ہوگئی،اب پندرہ سال  کے بعد ہم نے جب بینک کا لون خود ادا کیا تو رجسٹری ہمارے پاس آگئی۔رجسٹری اس ٹائم دادی جان کے نام پر تھی۔ وہ رجسٹری بذریعہ انتقال ہم نے اپنے نام پر کروا دی ۔ رجسٹری منتقل کرواتے وقت میرے والد صاحب اور ان کے بھائیوں میں سے کوئی بھی زندہ نہیں تھا۔

 جیسا کہ آپ کو بتایا کہ صرف  زمین دادی جان کے نام پر تھی    اور شروع سے ہی اس کی تعمیر و ترقی پر ہم نے پیسے خرچ کیے اور قبضہ بھی ہمارا ہے مجھے یہ بتائیں کے کیایہ ہبہ یا گفٹ   شریعت کے مطابق پورا ہو چکا ہے  ؟

اب میں اس مکان کو سیل کرنا چاہ رہا ہوں ،میری رہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ انسان کا اپنی زندگی میں اپنی جائیداد میں سے کسی کو کچھ دینا ہبہ کہلاتا ہے اور   ہبہ کے درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ واہب (ہبہ کرنے والا) موہوبہ چیز (جس چیز کا ہبہ کیا جارہاہے)  کو موہوب لہ (جس کو ہبہ کررہا ہے) کے نام کرنے کے ساتھ اس کا مکمل  قبضہ اور تصرف بھی دے دے، اور ہبہ کے وقت موہوبہ چیز سے اپنا تصرف مکمل طور پر ختم کردے، ورنہ شرعاً ہبہ درست نہیں ہوتا۔

نیز ہر چیز کا قبضہ اسی چیز کے حساب سے ہوتا ہے،   مکان کے قبضہ کے تام ہونے کا طریقہ یہ ہے کہ  واہب ( مالک) اپنا سامان اس میں سے نکال دے اور خود بھی کچھ  وقت کے لیے اس میں سے نکل جائے  اور اگر مکان میں موجود سامان بھی مکان کے ساتھ ہبہ کردیا جائے  تو پھر اس مکان اور  موہوب لہ (جس کو ہبہ کیا جارہا ہے)  میں تخلیہ کردینا کافی ہے، اور  تخلیہ کہ صورت یہ ہے کہ  واہب کچھ وقت کے لیے اس مکان سے نکل جائے تو موہوب لہ ( جس کو ہبہ کیا جارہا ہے) کا قبضہ تام ہوجائے گا،  پھر ہبہ کرنے والا اگر موہوب لہ( جس کو ہبہ کیا جارہا ہے) کی اجازت سے اس مکان میں رہائش اختیار کرے تو یہ ہبہ کے تام ہونے سے مانع نہیں ہوگا۔ لیکن اگر ہبہ کرنے والا خود اس مکان میں موجود ہو  یا اس کا سامان موجود ہو اور وہ صرف مکان کسی کو ہبہ کردے تو  یہ ہبہ مکمل نہیں ہوتا۔  صورتِ مسئولہ میں آپ کی دادی کیونکہ خود مکان میں رہائش پذیر تھیں۔لہذا مکان کاقبضہ دیے بغیر صرف آپ کے ابو کے نام کردینے اور خود بھی اس میں رہائش پذیر رہنے سےیہ ہبہ مکمل نہیں ہوا،  مذکورہ مکان بدستور آپ کی دادی کی ملکیت میں برقرار ہےاور ان کے انتقال کے بعد ان کے ورثہ میں تقسیم ہوگا۔ البتہ اس میں جو اضافہ جات آپ نے ملکیت کے غرض سے کیے ہیں تو ان اضافی تعمیرات کے بقدر آپ اس کی ملکیت میں شریک ہیں۔ لہذا اس گھر کی فروختگی کے بعد حاصل ہونے والی قیمت کو زمین اور تعمیر کی قیمت کے تناسب سے تقسیم کیا جائے اور اضافی تعمیر کے بقدر رقم خالص آپ کی ہوگی اور زمین کے بقدر رقم دادی کے تمام وارثوں کے درمیان تقسیم ہوگی۔

حوالہ جات
فتاویٰ عالمگیری (4/378)
"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".
فتاوی شامی (5/690)
"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية".
فتاویٰ عالمگیری (4/374)
"وتصح في محوز مفرغ عن أملاك الواهب وحقوقه ومشاع لايقسم ولايبقى منتفعًا به بعد القسمة من جنس الانتفاع الذي كان قبل القسمة كالبيت  الصغير والحمام الصغير ولا تصح في مشاع يقسم ويبقى منتفعا به قبل القسمة وبعدها، هكذا في الكافي".
الفتاوى التاتارخانیة(14/431)
"وفي المنتقى عن أبي يوسف: لايجوز للرجل أن يهب لامرأته وأن تهب لزوجها أو لأجنبي دارًا وهما فيها ساكنان، وكذلك الهبة للولد الكبير؛ لأن يد الواهب ثابتة علي الدار".
وفیہ ایضا:
"وفي الفتاوى العتابية : ولو وهبه فارغًا وسلم مشغولًا لم يصح ولايصح قوله: أقبضها أو سلمت إليك إذا كان الواهب فيه أو أهله أو متاعه".

 ولی الحسنین

 دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

  ۲۴ رمضان ۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ولی الحسنین بن سمیع الحسنین

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب