021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بچوں کومسجد میں تعلیم دینے کا حکم
80086وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اور مفتیان عظام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ :

جامعۃ الرشید کا اہم ترین اور بنیادی شعبہ تحفیظ القرآن گزشتہ 25 سال سے قرآن کریم کی ترویج واشاعت میں مصروف عمل ہے۔یہ مکمل شعبہ جامع مسجد جامعۃ الرشید میں قائم ہےاور طلبہ کی تعداد تقریبا ایک ہزار ہے،کچھ درسگاہیں مسجد کے تہ خانے میں لگتی ہیں اور کچھ مسجد کی گیلری میں لگتی ہیں، کبھی شدید ضرورت کی بناء پر مسجد کے ہال یا برآمدے میں بھی درسگاہیں لگانا پڑتی ہیں،زیر تعلیم تمام بچوں سے فیس بھی وصول کی جاتی ہے نیز ظہر کے بعد یہ بچے مسجد ہی میں اسکول کی تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں۔یہ بچے تعلیمی دورانیہ شروع ہوتے وقت جب مسجد آتے ہیں تو اگر اساتذہ موجود نہ ہوں تو بہت شور مچاتے ہیں، نیز بسکٹ، پاپڑ وغیرہ کھا کر ریپر مسجد میں بھی پھینک دیتے ہیں۔ کبھی کبھی کسی بچے کا کا پیشاب بھی نکل جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ :

1 ۔ مذکورہ بالا صورت حال کے پیش نظر ان بچوں سے فیس لے کریا بلا فیس لیے مسجد میں قرآن کریم اور اسکول کی تعلیم دینا جائز ہےیا نہیں۔ واضح رہے کہ یہ فیس جامعہ کے خزانہ میں جمع ہوتی ہے اور جامعہ قاری صاحبان کو تنخواہیں دیتا ہے۔

 2۔  فی الحال کوئی متبادل جگہ بھی نہیں اور آئندہ 5 سال تک متبادل کے کوئی امکانات بھی نظر نہیں آرہے ایسی صورت حال میں انتظامیہ جامعۃ الرشید کو کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہئے؟

براہ کرم مذکورہ بالا سوالات کے جامع ومدلل جوابات قرآن وسنت کی روشنی میں عنایت فرماکر ممنون فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مسجد میں اجرت لیکر تعلیم دینے کے بارے میں احناف کی کتب ِ فقہ میں مختلف عبارتیں پائی جاتی ہیں، بعض کتب فقہ میں مطلقاً مکروہ لکھا ہے اور بعض کتب فقہ میں ضرورت کی بنا پر جائز لکھا ہے البتہ فتاوی بزازیہ میں مطلقاً جائز لکھا ہے، لہذا اب زمانہ کی ضرورت اور تعلیم کی اہمیت کی بناپر بزازیہ کی عبارت کے پیش نظر مطلقاً جائز قرار دیا جائے ، تو ان شاء اللہ خلاف صواب نہ ہو گا ،البتہ مسجد کے ادب واحترام کا لحاظ رکھا جائے تاکہ نصوص کی مخالفت بھی لازم نہ آئے ۔

موجودہ صورت حال میں چونکہ کوئی متبادل جگہ میسر نہیں اور دنیاوی تعلیم کو دینی تعلیم کے تابع بنا کر فراہم کیا جاتا ہے نہ کہ مستقلا، لہذا موجودہ ترتیب کو جاری رکھنے میں کوئی حرج نہیں البتہ مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے:

  1. مسجد میں تعلیم، نماز اور ذکر وتلاوت قرآن وغیرہ عبادت میں مخل نہ ہو ۔
  2. مسجد کی طہارت ونظافت اور ادب واحترام کا پورا خیال رکھا جائے ۔
  3. کمسن اور ناسمجھ بچوں کو مسجد میں نہ لایا جائے ۔

 

ان باتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئےمذکورہ صورت میں انتظامیہ کو یہ اقدامات کرنا لازمی ہیں ۔

  1. وہ جماعتیں جن میں اتنے چھوٹے بچے ہوں کہ ان کے پیشاب نکل جانے کا خطرہ ہو تو ان کی تعلیم کا کسی اور جگہ بندوبست کیا جائے اور ان کو مسجد میں نہ بٹھایا جائے۔
  2. طلبہ کے آنے سے پہلے ہی ان کی نگرانی کے لیے اساتذہ مسجد میں موجود ہوں تاکہ مسجد میں شوروشغب مچانے اور گندگی پھیلانےسے بچوں کو روکا جاسکے۔
  3. طلبہ و اساتذہ کو وقتا فوقتا آدابِ مسجد کی یاد دہانی کروائی جاتی رہے۔
  4. مسجد میں تعلیم کو ایک ضرورت سمجھا جائے اور مستقبل میں اس کا کوئی متبادل تلاش کیا جائے۔
حوالہ جات
الدر المختار (6/ 428)
ويفسق معتاد المرور بجامع ومن علم الأطفال فيه ويوزر
حاشية ابن عابدين (6/ 428)
قوله (ومن علم الأطفال إلخ) الذي في القنية أنه يأثم ولا يلزم منه الفسق ولم ينقل عن أحد القول به ويمكن أنه بناء على أنه بالإصرار عليه يفسق، أفاده الشارح
قلت: بل في التاترخانية عن العيون جلس معلم أو وراق في المسجد فإن كان يعلم أو يكتب بأجر يكره إلا لضرورة
وفي الخلاصة تعليم الصبيان في المسجد لا بأس به اه
بزازیۃ4/357))
وتعلیم الصبیان فیہ بلا أجرۃ وبالأجر یجوز ۔
الفتاوى الهندية (1/ 110)
وأما المعلم الذي يعلم الصبيان بأجر إذا جلس في المسجد يعلم الصبيان لضرورة الحر أو غيره لا يكره
البحر الرائق (2/ 36)
ومن هنا يعلم جهل بعض مدرسي زماننا من منعهم من يدرس في مسجد تقرر في تدريسه أو كراهتهم لذلك زاعمين الاختصاص بها دون غيرهم حتى سمعت من بعضهم أنه يضيفها إلى نفسه ويقول هذه مدرستي أو لا تدرس في مدرستي وأعجب من ذلك أنه إذا غضب على شخص يمنعه من دخول المسجد خصوصا بسبب أمر دنيوي وهذا كله جهل عظيم ولا يبعد أن يكون كبيرة فقد قال الله تعالى { وأن المساجد لله } الجن 18 وما تلوناه من الآية السابقة فلا يجوز لأحد مطلقا أن يمنع مؤمنا من عبادة يأتي بها في المسجد لأن المسجد ما بني إلا لها من صلاة واعتكاف وذكر شرعي وتعليم علم وتعلمه وقراءة قرآن
 ولا يتعين مكان مخصوص لأحد حتى لو كان للمدرس موضع من المسجد يدرس فيه فسبقه غيره إليه ليس له إزعاجه وإقامته منه فقد قال الإمام الزاهدي في فتاويه المسماة بالقنية معزيا إلى فتاوي العصر له في المسجد موضع معين يواظب عليه وقد شغله غيره قال الأوزاعي له أن يزعجه وليس له ذلك عندنا ا هـ
سنن ابن ماجہ (1/ 247)
"عن واثلة بن الأسقع، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «جنبوا مساجدكم صبيانكم، ومجانينكم، وشراءكم، وبيعكم، وخصوماتكم، ورفع أصواتكم، وإقامة حدودكم، وسل سيوفكم، واتخذوا على أبوابها المطاهر، وجمروها في الجمع»."
فيض القدير (3 / 351)
"(جنبوا مساجدنا) وفي رواية مساجدكم (صبيانكم) أراد به هنا ما يشمل الذكور والإناث (ومجانينكم) فيكره إدخالهما تنزيها إن أمن تنجيسهم للمسجد وتحريما إن لم يؤمن."
نيل الأوطار  (2 / 144)
(وعن أبي هريرة قال: «كنا نصلي مع النبي صلى الله عليه وسلم العشاء، فإذا سجد وثب الحسن والحسين على ظهره فإذا رفع رأسه أخذهما من خلفه أخذا رفيقا ووضعهما على الأرض، فإذا عاد عادا حتى قضى صلاته، ثم أقعد أحدهما على فخذيه، قال: فقمت إليه، فقلت: يا رسول الله أردهما فبرقت برقة، فقال لهما: الحقا بأمكما فمكث ضوؤها حتى دخلا» . رواه أحمد) . الحديث أخرجه أيضا ابن عساكر وفي إسناد أحمد كامل بن العلاء وفيه مقال معروف۔۔۔۔۔۔و
وفيه جواز إدخال الصبيان المساجد. وقد أخرج الطبراني من حديث معاذ بن جبل قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «جنبوا مساجدكم صبيانكم وخصوماتكم وحدودكم وشراءكم وبيعكم وجمروها يوم جمعكم واجعلوا على أبوابها مطاهركم» ولكن الراوي له عن معاذ مكحول وهو لم يسمع منه، وأخرج ابن ماجه من حديث واثلة بن الأسقع أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «جنبوا مساجدكم صبيانكم ومجانينكم وشراءكم وبيعكم وخصوماتكم ورفع أصواتكم وإقامة حدودكم وسل سيوفكم واتخذوا على أبوابها المطاهر وجمروها في الجمع» وفي إسناده الحارث بن شهاب وهو ضعيف. وقد عارض هذين الحديثين الضعيفين حديث أمامة المتقدم وهو متفق عليه. وحديث الباب وحديث أنس أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إني لأسمع بكاء الصبي وأنا في الصلاة فأخفف، مخافة أن تفتتن أمه» وهو متفق عليه فيجمع بين الأحاديث بحمل الأمر بالتجنيب على الندب كما قال العراقي في شرح الترمذي، أو بأنها تنزه المساجد عمن لا يؤمن حدثه فيها."
فتاوی شامی (1/ 656)
" ويحرم إدخال صبيان ومجانين حيث غلب تنجيسهم وإلا فيكره
(قوله: ويحرم إلخ) لما أخرجه المنذري " مرفوعًا «جنبوا مساجدكم صبيانكم ومجانينكم، وبيعكم وشراءكم، ورفع أصواتكم، وسل سيوفكم، وإقامة حدودكم، وجمروها في الجمع، واجعلوا على أبوابها المطاهر» " بحر. والمطاهر جمع مطهرة بكسر الميم، والفتح لغة: وهو كل إناء يتطهر به كما في المصباح، والمراد بالحرمة كراهة التحريم لظنية الدليل. وأما قوله تعالى: {أن طهرا بيتي للطائفين} [البقرة: 125]- الآية فيحتمل الطهارة من أعمال أهل الشرك تأمل؛ وعليه (فقوله وإلا فيكره )أي تنزيها تأمل."
تقریرات الرافعي علی الدر(82/2)
" قول الشارح: وإلا فیکرہ أي حیث لم یبالوا بمراعات حق المسجد من مسح نخامۃ، أو تفل في المسجد، وإلا فإذا کانوا ممیزین ویعظمون المساجد بتعلم المساجد بتعلم من ولیھم، فلاکراهة في دخولهم."
فتاوی قاسمیہ میں علامہ شبیر احمدقاسمی رحمۃاللہ علیہ نے تنخواہ دارمدرس کے لیے بلاترددوبلاکراہت مسجد میں درس دینا جائز قرار دیا ہے۔

   ولی الحسنین

 دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

۲۸ رمضان ۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ولی الحسنین بن سمیع الحسنین

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب