021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
امام مسجد کی معزولی کا حکم
80085وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

ہماری مسجد کے امام صاحب گذشتہ 20 سال سے امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں اس دوران اس مسجد میں مختلف انتظامی کمیٹیوں نے ذمہ داری ادا کی ہے۔موجودہ نئی کمیٹی نے 9 ماہ قبل ذمہ داری سنبھالی ہے، اور انہوں نے امام صاحب پر مالی بدعنوانی کے الزامات لگائے ہیں اور اس بنیاد پر انہیں امامت کے فرائض ادا کرنے سے روک دیا،  جس پر مسجد کے بیشتر نمازیوں کو بہت سخت اعتراض ہے۔ اسی سلسلے میں ایک دن نمازیوں نے موجودہ کمیٹی کے ارکان سے امام کی غیر حاضری کے متعلق دریافت کیا جس پر کمیٹی ارکان نے بتایا کہ امام صاحب مالی بدعنوانی میں ملوث ہیں مگر نمازیوں نے یقین نہیں کیا جس پر کمیٹی نے ایک صاحب کو پیش کیا جنہوں نے بتایا کہ وہ گذشتہ 5 سالوں سے مختلف کار خیر کی مد میں امام کو رقم ادا کرتے رہے ہیں۔ اس رمضان کی افطار کے لئے مبلغ ایک لاکھ روپے دئے جو امام صاحب نے کمیٹی کے علم میں لائے بغیر اپنے پاس مناسب وقت پر افطاری یا کسی اور کارخیر میں خرچ کرنے کے لئے رکھ لئے جس کو رقم دینے والے کی اجازت کے ساتھ آگے خرچ کرنا تھی۔  پندرہ دن کے بعد امام صاحب نے ان سے درخواست کی۔  کہ ایک شخص کو حج کے لیے دو لاکھ روپے کی ضرورت ہے، اگر آپ اس صدقہ میں حصہ ڈالنا چاہتے ہیں تو ڈال دیں، ان صاحب نے رقم امام صاحب کو عطیہ کردی، اس کے بعد کمیٹی کو جب ان دونوں معاملات کا علم ہوا۔  تو انہوں نے امام صاحب سے اس واقعہ پر اپنی تشویش کا اظہار کیا جس پر امام صاحب نے جواب دیا کہ وہ ان صاحب کی اجازت کے بعد ایک لاکھ روپے دوسرے نیک کاموں میں خرچ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔  امام صاحب نے کہا کہ وہ حج کے پیسے پہلے ہی ادا کر چکے ہیں، بعد میں امام صاحب نے کمیٹی کو ایک لاکھ روپے جمع کرا دیے۔  اس بارے میں امام صاحب کا موقف تھا کہ کچھ غلط فہمی کی بنا پر دینے والے صاحب اور ان کے درمیان اس متعلق کھل کر بات نہیں ہوسکی ہے اور موجودہ کمیٹی نے مسجد میں مختلف جگہ کمیٹی کے 3 ممبر کے نام اور فون نمبر کے ساتھ لکھا ہے کہ ان تینوں افراد سے نقد رقم کے لیے رابطہ کریں، اس لیے حسب معمول اجازت کے بعد رقم کسی بھی دوسرے مد میں استعمال کی جا سکتی ہے۔  ان معاملات کے بعد کمیٹی نے امام پر ذاتی وجوہات کی بنا پر استعفیٰ دینے کے لیے دباؤ ڈالا اور اس سے قبل ان سے ایک معافی نامہ بھی لکھوایا گیا مگر اسے بھی قبول نہیں کیا گیا۔ امام صاحب نے استعفی نہیں دیا کیونکہ وہ ذہنی طور اس پر تیار نہیں ہوئے کیونکہ اتنی پرانی امامت چھوڑنا اور اپنے اوپر جھوٹے الزامات کے ساتھ رخصت ہونا مناسب نہیں سمجھا۔  کمیٹی نے پھر امام صاحب کو نماز پڑھنے اور پڑھانے سے منع کر دیا، جس کے بعد نمازیوں کو امام کی کئی دنوں کی غیر حاضری پر تشویش ہوئی، جس کے بعد مندرجہ بالا بیان کردہ واقعہ پیش آیا۔  امام صاحب نے پچھلے چند سالوں میں غبن کیا ہے۔  اس سلسلے میں نمازیوں نے سابق کمیٹی ممبران سے رابطہ کیا جو دس سال سے انچارج تھے۔  انہوں نے بتایا کہ امام صاحب کی طرف سے70-  75 لاکھ نقد عطیہ ملا تھا جو انہوں نے کمیٹی کے حوالے بھی کیا۔  اس کے علاوہ موجودہ کمیٹی کے آنے کے بعد امام صاحب کے ساتھ نامناسب رویہ رکھا گیا۔  ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جو مسجد بنتے وقت امام صاحب کے زیر استعمال تھا، اسے واپس لے لیا گیا اور رمضان مبارک کے علاوہ مسجد سے امام صاحب کے گھر جو افطاری جاتی تھی اس پر بھی پابندی لگا دی گئی اور ایک انتہائی دلخراش واقعہ پیش آیا۔ ہوا یہ کہ کمیٹی ممبران نے مختلف لوگوں سے پوچھنا شروع کر دیا کہ جب وہ ہر سال حج پر جاتے ہیں تو اس کے پیسے کہاں سے آتے ہیں جس پر کچھ نمازیوں نے بتایا کہ وہ اس سلسلے میں معاونت کرتے رہے ہیں۔  لیکن کمیٹی والوں نے فیصلہ کیا کہ اس امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں لیکن  اکثر نمازیوں کا موقف یہ تھا کہ ہمیں ان کے پیچھے نماز پڑھنی ہیں ۔  علمائے کرام سے درخواست ہے کہ اس سلسلے میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ امام مسجد یا وقف کے کسی اور ملازم کو مالی بدعنوانی یا کسی اور بددیانتی کی بنیاد پر امامت و ملازمت وغیرہ سے معزول کرنا شرعا جائز ہے ۔تاہم یہ ضروری ہے کہ ایسے کسی جرم کے محض الزام پر ایسا نہ کیا جائے کیونکہ شرعی ثبوت کے بغیر محض الزام کی بنیاد پر کسی کو وقف کی ملازمت سے معزول کرنا شرعا جائز نہیں۔

 اس تمہید کی روشنی میں صورت مسؤلہ کا حکم یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں سوال میں منقول کمیٹی ممبران کے بیان سے امام مسجد کا کسی قسم کی خیانت و بددیانتی میں ملوث ہونا ثابت نہیں ہوتا ،لہذا کمیٹی ممبران کا شرعی ثبوت کے بغیر امام مسجد پر مالی بدعنوانی کی تہمت لگانا اور اس کو امامت سے معزول کرنا شرعاً ناجائز اور ظلم ہے ،ان پر لازم ہے کہ 20 سال سے امامت و خطابت کی عظیم خدمت سرانجام دینے والےقابل احترام امام صاحب پر بے بنیاد الزامات لگا کر جو انہیں سخت اذیت پہنچائی ہے اس پرامام صاحب سے معافی مانگ کر ان کو ان کو امامت پر بحال کریں اور چونکہ انہوں نے اس کی تشہیر کر کے امام صاحب کو بد نام کیا ہے اور یہ ایک اعلانیہ گناہ ہے اس لیے اس کی توبہ بھی اعلانیہ ہونا لازم ہے، لہذا بد نام کرنے والوں پر لازم ہے کہ مسجد میں سب مقتدیوں کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف کریں اور سب کو جو اتنے عرصے تک تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے اس کی سب سے معافی مانگیں اور امام صاحب کی صفائی پیش کریں۔ساتھ ساتھ اپنے اللہ سے بھی سچے دل سے توبہ و استغفار کریں۔

حوالہ جات
الدر المختار (4/ 438)
ليس للقاضي عزل الناظر بمجرد شكاية المستحقين حتى يثبتوا عليه خيانة
حاشية ابن عابدين (4/ 382)
مطلب لا يصح عزل صاحب وظيفة بلا جنحة أو عدم أهلية  تنبيه قال في البحر واستفيد من عدم صحة عزل الناظر بلا جنحة عدمها لصاحب وظيفة في وقف بغير جنحة وعدم أهلية
البحر الرائق (5/ 245)
فلا يحل عزل القاضي لصاحب وظيفة بغير جنحة وعدم أهلية ولو فعل لم يصح

ولی الحسنین

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

۲۸ رمضان ۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ولی الحسنین بن سمیع الحسنین

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب