021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاقِ مغلظہ کے بعد ساتھ رہنے اور نئے حمل کا حکم
80088طلاق کے احکامصریح طلاق کابیان

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ گھریلو مسائل کی وجہ سے مَیں نے غصے میں اپنی بیوی کو کال پر تین طلاقیں دے دیں تھیں۔ اس وقت میری بیوی حاملہ تھی، اور اُس حمل میں موجود بیٹی کی پیدائش بھی ہو چکی ہے۔ اس واقعہ کو ایک سال ہوچکا ہے، لیکن بیوی ابھی بھی شوہر کے ساتھ رہتی ہے، اور دوبارہ حاملہ ہوگئی ہے۔ بیوی کا شوہر کے ساتھ رہنے کا اور حمل کا کیا حکم ہے؟

وضاحت: شوہر کا کہنا ہے کہ اُس نے فون میں اپنی بیوی سے تین مرتبہ طلاق ہے، طلاق ہے، طلاق ہے کہا تھا۔ اور موجودہ حمل کی مدت ایک ماہ کی ہے۔ نیز شوہر اپنے فعل پہ شرمندہ ہے، اور ساتھ رہنے کی کوئی شرعی صورت جاننا چاہتا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کردہ صورت میں آپ کی بیوی کو تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں،لہٰذا آپ دونوں کا ایک ساتھ  رہنا ناجائز اور حرام ہے۔ اس لیے آپ دونوں کو چاہیے کہ فوراً علیحدہ ہو جائیں، اور اب تک ساتھ رہنے کی وجہ سے جن حرام کاموں کا ارتکاب ہوا ہے، اُس پر اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کریں۔

اور طلاق دینے کے وقت آپ کی بیوی جس حمل سے تھیں، اُس حمل (بیٹی) کا نسب آپ سے ثابت ہوگا، لیکن طلاق دینے کے بعد ساتھ رہنے کی وجہ سے جو حمل ہوا ہے، اُس کا نسب آپ سے ثابت نہیں ہوگا، کیونکہ یہ زنا کے حکم میں ہے، اور زنا سے نسب ثابت نہیں ہوتا، لہٰذا موجودہ حمل چونکہ ایک ماہ کا ہے، اس لیے اُس کو ساقط (abortion) کروا لینا بہتر ہے۔

اور اگر آپ دونوں دوبارہ ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو حلالۂ شرعیہ کے بغیر ساتھ نہیں رہ سکتے۔ حلالۂ شرعیہ کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی بیوی بغیر کسی شرط کے کسی دوسرے شخص کے ساتھ نکاح کرے، اور دوسرے شوہر سے صحبت (ہمبستری) قائم ہو جائے، اُس کے بعد شوہر کسی وجہ سے طلاق دے دے یا اُس کا انتقال ہو جائے، تو پہلی صورت میں عدتِ طلاق (تین ماہواریاں) اور دوسری صورت میں عدتِ وفات گزار کر آپ سے نکاح کرنا چاہے تو کر سکتی ہے۔

حوالہ جات
بدائع الصنائع (3/187):
"وأما الطلقات الثلاث، فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا، حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل: { فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره }، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة."
الدر المختار (3/414):
"(وكره) التزوج للثاني (تحريما)، لحديث: لعن المحلل والمحلل له (بشرط التحليل) كتزوجتك على أن أحللك (وإن حلت للأول) لصحة النكاح وبطلان الشرط ... (أما إذا أضمرا ذلك، لا) يكره (وكان) الرجل (مأجورا) لقصد الإصلاح وتأويل اللعن إذا شرط الأجر."
الفتاوى الهندية (5/356):
"العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقه، كالشعر والظفر ونحوهما، لا يجوز، وإن كان غير مستبين الخلق، يجوز."

محمد مسعود الحسن صدیقی

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

27/رمضان المبارک/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مسعود الحسن صدیقی ولد احمد حسن صدیقی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب