021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مرحومہ والدہ کے مکان کی باقی اقساط چھوٹے بیٹےنےاداکئے ہوں تو اس کاحکم
80268وصیت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

قسمت بی بی بیوہ نوا ب دین نے آج سے تقریباً  43سال پہلے گرین ٹاؤن لاہور کی سکیم میں  LDAسے ایک کوارٹر قسطوں پر لیا، گورنمنٹ کی طر ف سے ایک آدمی کو ایک کوارٹر ہی الاٹ ہوتا تھا۔ قسمت بی بی کے بڑے بیٹے جمیل غوری نے بھی اپنی والدہ کےساتھ والا کوارٹر قسطوں پر لے لیا، دونوں کوارٹروں کی الاٹمنٹ کی تاریخ (08/09/1980 ) ایک ہی ہے،اس کوارٹر میں قسمت بی بی اپنے ایک کنوارے لڑکے جاوید غوری اور ایک کنواری بیٹی کے ساتھ رہائش پذیر ہوگئی۔ قسمت بی بی کا بڑا بیٹا جمیل غوری بھی اپنے کوارٹر میں بیوی بچوں کے ساتھ رہائش پذیر ہوگیا،مکان کی قسطیں مکمل اداکرنے کے بعد جمیل غوری کا اپنے کوارٹر پر باقاعدہ قبضہ ہو گیا،قسمت بی بی بھی محنت مزدوری کرکے مکان کی اقساط اداکرتی رہی۔  10سال کی قسطیں اداہو چکی تھیں کہ1990ءمیں قسمت بی بی کا انتقال ہوگیا، آگے کی 5سال کی قسطیں قسمت بی بی کےچھوٹے بیٹے جاوید غوری نے اداکی،اس طرح 15سال کی اقساط ادا ہونے کے بعدمکانLDA کی طرف سے کلیئر ہوگیا۔ چونکہ مکان LDA کی جانب سے قسمت بی بی کو الاٹ ہواتھا، لہٰذا کاغذات میں مکان کی مالکن قسمت بی بی ہی ہے۔  1992ء  میں جاوید غوری کی شادی ہوئی تو تب سے تاحال جاوید غوری  (جوشروع سے ہی مکان کے رہائشی تھے) اپنی فیملی کے ساتھ اس مکان میں رہتے آ رہے ہیں،قسمت بی بی کے دو بیٹے اور سات بیٹیاں ہیں جن میں سے دونوں بیٹے اور چار بیٹیاں  (والدہ کی وفات کے بعد سے)  اب تک وفات پاچکے ہیں،جمیل غوری (وفات 2021)  کے مکان میں ان کے بیوی بچے اور قسمت بی بی کے نام کے مکان میں جاوید غوری (وفات2020) کے بیوی بچے رہتے آرہے ہیں۔گزشتہ سال جاوید غوری کے بچوں نے مکان کو گراکر دوبارہ تعمیر کرنا تھا، ابھی مکان گرایا ہی تھا کہ جمیل غوری کے خاندان والوں نے مطالبہ کیا کہ چونکہ یہ مکان ان کی دادی کے نام ہے، لہٰذا اس میں ان کا بھی حصہ ہے، اس تنازعہ کی وجہ سے مکان کی تعمیر رک گئی جو کہ تاحال رکی ہوئی ہے، جاوید غوری کی فیملی تب سے کرائے کے مکان میں زندگی بسرکررہی ہے،جمیل غوری کی ایک بیوی،چاربیٹے اور دوبیٹیاں ہیں جو سب کے سب حیات ہیں،جاوید غوری کی بھی ایک بیوی، دوبیٹے اور تین بیٹیاں ہیں جو کہ سب کے سب حیات ہیں۔آپ سے عرض ہے کہ اس تنازعہ کا شرعی حل تجویز فرما دیں۔جومعلومات اوپر تحریر کی گئی ہیں وہ بالکل درست ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

معاملہ کرتے ہی مذکورہکوارٹر قسمت بی بی کی ملکیت میں آگیا تھا لہذا ان کی موت کی صورت میں یہ کواٹر ان کے ترکہ میں شامل ہوکرتمام ورثہ میں شرعی حصوں کےحساب سے تقسیم ہوگا، جہاں تک باقی اقساط کی بات ہے تووہ  ان پرقرض تھے۔بیٹے جاوید غوری کی ادا کردہ اقساط کے حکم میں یہ تفصیل ہے کہ اگریہ اقساط اس نے اپنی رقم سے صرف تعاون کے طورپر اوراقرباءکی راحت رسانی کے لئےلگائی تھی اوراس کی نیت ادئیگی کے وقت واپس لینے کی نہیں  تھی تو یہ اس کا احسان تھااور  تقسیمِ ترکہ کے وقت یہ رقم اسے واپس نہیں دی جائے گی اورنہ ہی وہ خود  اس رقم کی واپسی کا مطالبہ کرسکتاہے اوراگریہ رقم اس نے قرضہ کی نیت سے لگائی  تھیں اوراب مطالبہ بھی کرتاہے توپھریہ اس کاقرض ہے جو تقسیم کے وقت واپس کیاجائے گااوراگروہ فوت ہوگیاہوتو اس کے ورثہ (بیوی،بچوں)کوواپس کیاجائےگا،اورمیراث  میں اس کا حصہ اس کے علاوہ ہوگا،لیکن اس رقم کی وجہ سے وہ پورے کواٹرکے مالک نہیں ہوئےبلکہ ان کوصرف اپنا شرعی حصہ ملے گا اورمذکورہ رقم ملے گی بشرطیکہ کہ یہ  رقم انہوں نےقرض کی نیت سے لگائی ہوورنہ صرف حصہ ملے گا ،رقم نہیں ملے گی ۔

بہرحال قسطوں میں ادا کردہ رقم یا تبرع ہے یا قرض ہے اورمکان بہرحال قسمت بی بی کے سب ورثہ یعنی سب بیٹوں اوربیٹوں کا ہے۔

اگرقسمت بی بی کے صرف یہی ورثہ ہوں تو یہ مکان کل گیارہ حصوں میں تقسیم ہوگا،ہربیٹی وہ نہ ہوتو اس کے ورثہ کو ایک حصہ ملے گا اورہربیٹے یا اس کے ورثہ کو دو حصے ملیں گے۔

حوالہ جات
العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (2/ 81)
(سئل) في رجل بنى بماله لنفسه قصرا في دار أبيه بإذنه ثم مات أبوه عنه وعن ورثة غيره فهل يكون القصر لبانيه ويكون كالمستعير؟(الجواب) : نعم كما صرح بذلك في حاشية الأشباه من الوقف عند قوله كل من بنى في أرض غيره بأمره فهو لمالكها إلخ ومسألة العمارة كثيرة ذكرها في الفصول العمادية والفصولين وغيرها وعبارة المحشي بعد قوله ويكون كالمستعير فيكلف قلعه متى شاء.
الأشباه والنظائر - حنفي - (ج 1 / ص 219)كل من بنى في أرض غيره بأمره ة فالبناء لمالكها.
درر الحكام شرح مجلة الأحكام (3 / 189)
إذا بنى الباني بإذن شريكه للشركة أو بإذن شريكه على الإطلاق فهو مشترك وللشریك الباني الرجوع على شريكه بحصة من مصرف البناء . انظر المادة ( 139 ) . 3 - ( بدون إذن شريكه ) , هذا التعبير ليس احترازيا بل اتفاقي لأنه إذا بنى أحد الشركاء لنفسه بإذن شريكه فإذا كان بلا بدل فهو عارية وللمعير في أي وقت أراد الرجوع عن عاريته توفيقا للمادة ( 837 ) وأن يطلب قلع البناء , وإذا كان هذا الإذن مقابل بدل معلوم فهو إجارة وتجري في ذلك الأحكام المبينة في شرح المادة ( 531 ) . أما إذا بنى للشركة بدون إذن شريكه فيكون البناء مشتركا والباني متبرعا بمصرفه على البناء وليس له الرجوع على شريكه بحصته من المصرف۔
(رد المحتار) (6 / 747):
 (قوله عمر دار زوجته إلخ) على هذا التفصيل عمارة كرمها وسائر أملاكها جامع الفصولين، وفيه عن العدة كل من بنى في دار غيره بأمره فالبناء لآمره ولو لنفسه بلا أمره فهو له، وله رفعه إلا أن يضر بالبناء، فيمنع ولو بنى لرب الأرض، بلا أمره ينبغي أن يكون متبرعا كما مر اهـ
وفی سورة النساء: 11
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ.

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

 10/11/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب