021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تین بھائیوں اورتین بہنوں میں میراث کی شرعی تقسیم
80095میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

        ہمارے والد صاحب کا انتقال ہوگیاہے اوروالدہ کا انتقال والد سے پہلے ہی ہوگیاتھا ،ہماری فیملی میں تین بھائی اورتین بہنیں ہیں اوروالد صاحب نے میراث میں ایک گھر چھوڑا ہے جس کی قیمت 58لاکھ لگی ہے،اب تین بھائیوں اورتین بہنوں میں یہ کیسے تقسیم ہوگا اورہرایک کا کتناحصہ ہوگا؟یہ وضاحت سےبیان فرمادیں۔

دوسری بات یہ ہے ہماری سب سے چھوٹی بہن کی شادی بڑی بہن کے پسند کے مطابق ہوئی تھی اورشادی کے خرچے ہم سب بہن بھائیوں نے ملکراٹھائےتھے،بدقسمتی سے وہ شادی کامیاب نہیں ہوئی اوریہ شادی والد صاحب کے سامنے ان کی زندگی میں ہوئی تھی۔اب چھوٹی بہن کبھی بھائی اورکبھی بڑی بہن کے ہاں رہتی ہے جبکہ بڑے بھائی نے بولا کہ ہمارے پاس رہ لو،لیکن اس کو بڑی بہن نے اپنے پاس رکھاہواہے۔اب پوچھنا یہ ہے کہ چھوٹی بہن جو بڑی بہن کے پاس رہتی ہے جب میراث میں سے اپناحصہ بھی لے گی تو وہ حصہ کون رکھے گا؟ اس کے علاوہ بہنوئی اوربہن کہتے ہیں کہ چھوٹی بہن کے حصے کے علاوہ بھائی اپنی وراثت کے حصوں میں سے دوبارہ شادی کے پانچ لاکھ اورایک سال کا خرچ دس ہزارپر مہینے کے حساب سے دے،کیایہ دینا ہوگایانہیں ؟

بہن اوربہنوئی تو قبر اورسوئم کے کھانے کے پیسے بھی مانگ رہے ہیں کیایہ بھی دینا ہونگےیانہیں ؟  

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

    اگر آپ کے والدین واقعةًانتقال کرچکے ہیں اور والد کی وفات کے وقت آپ کے دادا دادی اسی طرح والدہ کی وفات کے وقت نانانانی میں سے کوئی حیات نہ رہا ہو تو والدین مرحومین کا تمام ترکہ بعد ادائے حقوقِ مقدمہ علی المیراث (کفن دفن کے متوسط اخراجات ،قرض  اوروصیت اگرکی ہو کی علی الترتیب ادائیگی کے بعد اگر مرحومین کےانتقال کے وقت صرف یہی ورثاء ہوں جوسوال میں مذکورہیں توکل منقولہ ،غیرمنقولہ ترکہ نوحصوں میں تقسیم کرکے دو،دو حصے تینوں بھائیوں میں سے ہر ایک کو اور ایک ایک حصہ تینوں بہنوں میں سے ہر ایک کو ملے گا،اورہر وارث اپنا حصہ خود رکھے گا۔

مسئلے کی شرعی تخریج درجِ  ذیل ہے:

لڑکا = ۲ (%22.22)          لڑکا = ۲ (%22.22)             لڑکا = ۲ (%22.22)

لڑکی = ۱ (11.11%)                   لڑکی = ۱ (11.11%)             لڑکی = ۱ (11.11%)

مذکورہ بہن میراث میں حصہ پانے کی وجہ سےسے چونکہ مالدارہے لہذا اس کا نفقہ اوردوسری شادی کے جملہ اخراجات اس کے  اپنے حصہ میراث سے ہونگے اوربھائیوں اوربہنوں پر اس کانفقہ اورشادی کے اخراجات لازم نہیں ہونگے،لہذا بڑی بہن اوراس کے شوہر کے لیے باقی بھائیوں اوربہنوں سے مذکورہ بہن کےلیے نفقہ ،دوسری شادی کے اخراجات،قبراورسوئم وغیرہ کے خرچوں  کا مطالبہ کرنا شرعاً جائز نہیں ۔

حوالہ جات
وفی رد المحتار:
الترکۃ في الاصطلاح ماترکہ المیت من الأموال صافیا عن تعلق حق الغیر بعین من الأموال۔ ( کتاب الفرائض، کراچي ۶/۷۵۹، مکتبۃ زکریا دیوبند ۱۰/۴۹۳)
وفی تکملہ فتح الملہم:
إن الأصل الأول في نظام المیراث الإسلامي: أن جمیع ماترک المیت من أملاکہ میراث للورثۃ ۔ (کتاب الفرائض، جمیع ماترک المیت میراث، مکتبۃ اشرفیۃ دیوبند ۲/)
وفی شرح المجلۃ:
إن أعیان المتوفي المتروکۃ عنہ مشترکۃ بین الورثۃ علی حسب حصصہم۔ (شرح المجلۃ لسلیم رستم باز، مکتبۃ اتحاد دیوبند ۱/۶۱۰، رقم المادۃ: ۱۰۹۲)
وفی القران الکریم(النساء: 7)
لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا.
قال اللہ تعالی :
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ..... وَلَهُنَّ الرُّبُعُ
مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْن   [النساء/11]
وفی البحر الرائق (8/ 567)
 والعصبة أربعة أصناف: عصبة بنفسه وهو جزء الميت وأصله وجزء أبيه وجزء جده الأقرب.
الفتاوى الهندية (1/ 564)
وإن كان الأب قد مات وترك أموالا، وترك أولادا صغارا كانت نفقة الأولاد من أنصبائهم، وكذا كل ما يكون وارثا
فنفقته في نصيبه، وكذلك امرأة الميت تكون نفقتها في حصتها من الميراث حاملا كانت أو حائلا.
وفی الهداية للمرغینانی:
الأصل أن نفقة الإنسان في مال نفسه صغيرا كان أو كبيرا... والنفقة لكل ذي رحم محرم إذا كان صغيرا فقيرا أو كانت امرأة بالغة فقيرة أو كان ذكرا بالغا فقيرا زمنا أو أعمى (الهداية، كتاب الطلاق، باب النفقة، فصل ونفقة أولاد الصغار، ج:2، ص:292-293)

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

19/10/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب