021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مضاربت میں مضارب پر نقصان ڈالنے کا حکم
80110مضاربت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ 

  ہم تین لوگوں نے شراکت داری میں ایک کاروبارکرنے کا ارادہ کیاتھا،کاروبارکے لیے رقم کاتخمینہ تقریباًتین کروڑروپیہ پاکستانی تھا۔اس شراکتی کاروبارمیں دو حضرات سےکی طرف سے  برابررقم لگائی گئی تھی  جبکہ تیسرے فریق نے کاروبارسے متعلقہ تکنیکی ،خریدوفروخت اورپروڈکشن کے معاملات دیکھنے تھے ،فریق دوم اورسوم اپنے ذاتی کام سے متعلق چائنہ گئے تو انہوں نے متعلقہ کاروبارسے متعلق فیکٹری میں مشین پسند کرکے اس ایڈوانس 8000USD متعلقہ فیکٹری کو ادا کردیے۔پاکستان واپس آکر جب باہمی مشاروت سے یہ طے پایا کہ متعلقہ کاروبارہم باہمی طورپر نہیں شروع کرسکتے جس کے باعث اس شراکت داری کو ختم کردیاگیا۔باہمی مشاورت میں یہ طے پایا تھاکہ متعلقہ کاروبارمیں تینوں حضرات نفع ونقصان میں برابر شریک ہونگے ۔اب عرصہ بعد جن صاحب نے بطورایڈوانس رقم ادا کی تھی ان کا کہنا یہ ہے کہ کہ وہ کمپنی ایڈوانس کی رقم واپس نہیں کررہی ہے ،اب یہ رقم ڈوب چکی ہے اورمیرانقصان ہوگیاہے تو یہ رقم مجھے واپس کی جائے۔

  فریق اول  رقم واپس دینے کو تیارہے مگر اس کا کہنا یہ ہے کہ متعلقہ کاروبارمیں نفع ونقصان میں برابرسب شراکت داری  تھی لہذا اس کو مدّنظررکھتے ہوئے متعلقہ رقم کے تین حصے کرلیے جائیں،اس طرح میں اپنا تیسراحصہ اد کرنے کےلیے تیارہوں، جبکہ فریق دوم کا موقف یہ ہے کہ فریق سوم چونکہ سرمایہ کاری میں شریک نہیں تھا تو اس کے حصہ کا تعین اس میں نہیں کیاجائے گااورتمام نقصان فریق اول اوردوئم کو برداشت کرنا ہوگا نیزفریق دوئم  کا یہ بھی کہنا ہے کہ چونکہ میں نے چائینہ میں ڈالرمیں ادائیگی کی تھی تو میں اپنی رقم ڈالرمیں واپس لوں گا۔

  فریق اول کا موقف یہ ہے کہ ہم نے کاروبار کے تمام معاملات پاکستانی روپیہ میں طے کئے تھے اس لیے جو اس وقت ڈالرکا ریٹ تھا اس کے حساب سے میں رقم لوٹاؤگااورچونکہ کاروباری معاملات برابرنفع اورنقصان کی بنیاد پرطے ہوئے تھے لہذا کل نقصان کے تین حصے ہونگےاورتیسرا حصہ میں دونگا۔اوردونگا بھی پاکستانی روپیہ میں اس لیے کہ ہم نے فریق دوئم سے ڈالرادھارتونہیں لئے تھےکہ اب ادائیگی ڈالرمیں کریں ، اس لیے رقم کی ادائیگی ڈالرمیں نہیں ہوگی ،پاکستانی روپیہ میں ہوگی۔

آنجاب سے گزارش ہے کہ متعلقہ مسئلہ کو مدنظر رکھتے ہوئے شریعت کی روشنی میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

  ایک کی طرف سے سرمایہ اوردوسرے کی طرف سے صرف عمل ہو تو اس عقد کو شریعت میں مضاربت کہتے ہیں ۔

  مضاربت کی صحت کے لیے دیگر شرائط کےساتھ ساتھ یہ شرط بھی ہے کہ نقصان صرف سرمایہ فراہم کرنے والے کا ہوگا ،مضارب اس میں شریک نہیں ہوگا،ہاں نفع (فیصد کی صورت میں)جتناچاہے مضارب کے لیے مقرر کیاجاسکتاہے،لہذ سوال میں مضارب پر جونقصان بھی ڈالاگیا ہے وہ  درست نہیں،تاہم اس سے عقد فاسد نہیں ہوا،بلکہ خودیہ شرط فاسدہوا،لہذ ا نقصان صرف فریق اول اوردوئم برداشت کریں گے اورتیسرے فریق پر کچھ نہیں ڈالاجائے گا،اورچونکہ ان دونوں فریقوں کا سرمایہ برابر  تھا  لہذا ضمان بھی برابرسرابریعنی آدھاآدھاان پر آئے گا ۔

   چونکہ معاملہ پاکستانی روپیہ میں طے ہوا تھا لہذا ادائیگی پاکستانی روپیہ میں ہوگی ،لہذاکمپنی کو ادا کردہ نصف ڈالروں کی  بوقتِ ادائیگی جو قیمت تھی وہی ہردو فریق پر لازم ہوگی ،ورنہ ڈالروں کی ادائیگی یا ان کی موجودہ قیمت کی ادائیگی کی شرط سے نقصان  برابرنہیں رہے گا،کیونکہ اب ڈالروں کی قیمت بہت زیادہ ہوچکی ہے ،آدھے ڈالروں کی موجودہ قیمت ادا کرنے سے ممکن ہے کہ فریق دوئم  کا نقصان نہ ہویا کم از کم ہواوراس طرح نقصان برابرنہیں رہے گا۔

حوالہ جات
المبسوط للسرخسي (11/ 157)
اشتراط الضمان على الأمين باطل، ألا ترى أن في المضاربة لا يجوز اشتراط شيء من الوضيعة على المضارب.
قال الحصکفي:
 وکل شرط یوجِبُ جہالة في الربح أو یقطع الشرکة فیہ یفسدہا وإلا بطل الشرط وصح العقد قال ابن عابدین: قولہ: ”بطل الشرط“ کشرط الخسران علی المضارب (الدر المختار مع رد المحتار: ۵/۶۴۸، کتاب المضاربة، ط: دار الفکر بیروت)
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (5/ 189)
 وإن شرطا أن يكون الربح والوضيعة بينهما نصفين فشرط الوضيعة نصفين فاسد ولكن بهذا لا تبطل الشركة؛ لأن الشركة لا تبطل بالشروط الفاسدة اهـ.
وفی الفتاوى الهندية ج: 18  ص: 60
والوضيعة أبدا على قدر رءوس أموالهما ، كذا في السراج الوهاج .
وفی تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي : 
"قال - رحمه الله - (وما هلك من مال المضاربة فمن الربح)؛ لأنه تابع ورأس المال أصل .. (فإن زاد الهالك على الربح لم يضمن المضارب)؛ لأنه أمين فلا يكون ضمينا للتنافي بينهما في شيء واحد".(کتاب المضاربۃ،باب المضارب یضارب،ج:5،ص:67،ط:المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة)

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

۲۲/١۰/۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب