021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
انوسٹرکانقصان برداشت نہ کرنا
80119مضاربت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

 ایک شخص نے قسطوں کاکاروبارشروع کررکھاہے،اپنے سرمایہ کے علاوہ اوربھی مختلف لوگوں سے سرمایہ کاری کیلئے کچھ رقم لیتارہتاہے اوراس کواپنے کاروبارمیں لگاتارہتاہے،جن لوگوں سے اس نے  رقم لے رکھی ہے ان کوہرسال ان کی رقم کے حساب سے کسی کو15 فیصد اورکسی کو20 فیصدسالانہ اداکرتاہے،اوروہ لوگ کسی نقصان کے ذمہ داربھی نہیں ہیں،پوچھنایہ ہے کہ کیایہ جائزطریقہ ہے یانہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کاروبارکی مذکورہ صورت درست نہیں،کیونکہ شرعی لحاظ سے یہ مضاربت کامعاملہ ہے،مضاربت کے درست ہونے کے لئے درج ذیل دوشرطوں کاہوناضروری ہے:

1۔نفع طے شدہ رقم نہ ہو، بلکہ جوبھی نفع ہو اس کافیصدی تناسب  طے کیاجائے۔

2.نقصان کی صورت میں سرمایہ کانقصان سرمایہ لگانے والا برداشت کرے،مضارب( کام کرنے والا) پراس کی تلافی کی شرط نہ ہو۔

لہذاصورت مسؤلہ میں دوبارہ سے ان دوشرطوں کے مطابق معاملہ کیاجائے تومعاملہ درست ہوجائے گا۔

حوالہ جات
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع للكاساني - (ج 8 / ص 250)
(ومنها) أن يكون المشروط لكل واحدمنهما من المضارب ورب المال من الربح جزأ شائعا نصفا أو ثلثا أوربعا فان شرطا عددا مقدرا بان شرطا أن يكون لاحدهما مائة درهم من الربح أو أقل أو أكثر والباقى للآخر لا يجوز والمضار بة فاسدة لان المضاربة نوع من الشركة وهى الشركة في الربح وهذا شرط يوجب قطع الشركة في الربح۔
وفی رد المحتار (ج 2 / ص 420):
بطل الشرط كاشتراط الخسران على المضارب، وكذا على رب المال أو عليهما كما في التحفة.

محمد اویس

دارالافتاء جامعة الرشید کراچی

            ۲۳/شوال ۱۴۴۴ ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب