021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مضاربت ِ فاسدہ کا حکم
80122مضاربت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ 

  میرا آن لائن مارکیٹ اورپانی اورکپڑے وغیرہ کا کاروبارہے،میرے دوست عمارنے طے شدہ کمیشن کی بنیاد پرمجھے انوسٹرزمہیاکئے ،ان کی جانب سے انوسٹ کی رقم ادا کی گئی اورایک شرائط نامہ (جس کی کاپی منسلک ہے) دیا کہ ان شرائط کے مطابق ایگریمنٹ بھی کرو اورسیکورٹی کےلیے ہر انوسٹرکو اس کی انوسٹ کے بقدرکا چیک بھی دو ، میں نے عمارکو سیکورٹی رسک کی بنیاد پر چیک دیدیئے، البتہ شرائط نامہ میں درج شرط نمبر 3اور8 پر اپنے تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے اسے ضابطہ شریعت میں لانے کا کہا، لیکن ہماری بات نہ بن سکی اوریو ایگریمنٹ تحریر میں نہ لایاجاسکا، تاہم محنت میری اوررقم ان کی بنیاد پر کاروبارشروع کردیاگیا،جب 12 ماہ کی مدتِ معاہدہ مکمل ہوگئی تو انہوں نے اصل رقم اورمنافع کا مطالبہ کیا،دوسری طرف ملکی معیشت کی تباہی سے جہاں دیگربڑے بڑے سرمایہ دارنقصان میں چلے گئے اس طرح میرا بھی نقصان ہوگیااورانوسٹرز اورمیری اصل رقم اورسرمایہ بھی ڈوب گیا،اس پر انہوں نے میرے سیکورٹی رسک کے چیک پر میمو لگواکرمیرے خلاف قانونی کاروائی کا کہا اورمجھے بلیک میل کرکے اصل رقم لینے کی کوشش کی اورمجھے بدنام کرناشروع کردیا،اس صورتِ حال میں علاقہ کی ایک معززشخصیت زید نے فریقین کو جمع کرکے موقف سنا اورمیرے موقف "کہ کسی دارالافتاء سے اس کا شرعی حل معلوم کرکے اس پر عمل کیاجائے"کو یکسرنظرانداز کرکے فیصلہ کیا کہ پرانے چیک لیکر چارقسطوں کے لیے نئے چیک دے کر ان کو ان کی اصل رقم ادا کروں اورآخری چیک کی تاریخ تک ان کو کسی بھی کاروائی سے روک دیا بشرطیکہ میں ہرقسط بروقت ادا کرتارہوں۔

اب دریافت طلب اموریہ ہے کہ

١۔ شرط نمبر 3 اور8 کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ اوراس سے عقدِ مضاربت کا کیاحکم ہوگا؟

۲۔ انویسٹرکا اصل رقم کا مطالبہ شرعاً کیا حکم رکھتاہے؟ میری محنت ضائع ہوگئی یا مجھے شرعاً اجرت کا حق ملے گا؟ اوراجرت کتنی ہوگی اورکاروباری اخراجات کا کیا ہوگا؟

۳۔ زید کے فیصلہ کی شرعی حیثیت کیاہے ؟

۴۔سیکورٹی رسک کےلیے چیک پر میمولگوانا اورقانونی کاروائی کا شرعاً کیا حکم ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ایک کی طرف سے سرمایہ اوردوسرے کی طرف سے صرف عمل ہو تو اس عقد کو شریعت میں مضاربت کہتے ہیں ۔ مضاربت کی صحت کے لیے دیگر شرائط کےساتھ ساتھ یہ شرط بھی ہے کہ عقد کے وقت سرمائے کے تحفظ کی یقین دہانی نہ کرائی جائے،اورنہ ہی معاملہ میں ایسی شرط رکھی جائے جو نفع میں شرکت کو ختم کردے، ایساکرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے معاملہ مضاربت کے بجائے قرض کا ہوجاتاہے، گویا ایک شخص دوسرے کو سال کی مدت کے لیے رقم قرض دے رہاہے جو سال کے اختتام پر پوری رقم واپس لے گا، مزید برآں وہ اس سے نفع بھی وصول کرے گا، جو کہ صراحتاً سود ہے۔نیز مذکورہ معاملہ گو کہ تحریری معاہدہ نہیں ہوا مگر اختتامِ مدت پر پورے سرمایہ کی واپسی کا مطالبہ ظاہر کررہاہے   کہ اس کے پیشِ نظرزبانی معاہدہ میں بھی  مذکورہ شرائط ملحوظ تھیں جبکہ آپ اس کانکارکررہےہیں جوکہ نزاع کی صورت ہے لہذا مذکورہ معاملہ مضاربہ فاسدہ کاہے جس کا حکم یہ ہے کہ اصل سرمایہ اورحاصل ہونے والا کل نفع(اگرہوا ہو) رب المال  کودیاجائے گا،البتہ اس کے خرچے نکالے جائیں گے اورمضارب (محنت کرنے والے/آپ ) کو اجرتِ مثل (اس جیسے کام پر جتنی اجرت دینے کا رواج ہے) ملے گی۔

اب آپ کے سوالات کے مختصرجوابات درج ذیل ہیں:

١۔ یہ دوں شرطیں فاسدہیں اوراس کی وجہ سے عقد فاسد ہوا۔

۲۔ چونکہ مذکورہ مضاربت فاسد ہے جس کاحکم اوپر لکھ دیا گیاہے کہ اصل رقم بمع منافع (اگرہواہو) رب المال کو لوٹایاجائے گا،اس لیے مسئولہ صورت میں انویسٹرکا اصل رقم کا مطالبہ کرنا درست ہے،البتہ وہ آپ کو بارہ مہینوں کی محنت کا اجرتِ مثل دینے کا پابندہوگا،نیزبراہِ راست کاروبارپر ہونے والے اخراجات بھی انوسٹرادا کرے گا ۔

۳۔ زید کا فیصلہ فی الجملہ درست ہے،البتہ اجرتِ مثل اوراخراجات انوسٹرآپ کو دے گا۔

۴۔ اگرآپ مسئلہ معلوم ہونے کے باوجود بھی ٹال مٹول سے کام لینگے تو پھران کےلیے شرعاً چیک پر میمولگاکر(یعنی یاداشت کی کاپی چیک کے ساتھ منسلک کرکے) قانونی راستہ اختیارکرنا درست ہوگا۔

حوالہ جات
وفی البحر الرائق  (7/ 264):
الرابع أن يكون الربح بينهما شائعا كالنصف والثلث لا سهما معينا يقطع الشركة كمائة درهم أو مع النصف عشرة الخامس أن يكون نصيب كل منهما معلوما فكل شرط يؤدي إلى جهالة الربح فهي فاسدة وما لا فلا مثل أن يشترط أن تكون الوضيعة على المضارب أو عليها فهي صحيحة وهو باطل ۔۔۔وحكمها أنه أمين بعد دفع المال إليه ووكيل عند العمل وشريك عند الربح وأجير عند الفساد فله أجر مثله والربح كله لرب المال‘‘ (كتاب المضاربة، ط: دارالكتاب الإسلامي بيروت)
وفی حاشية ابن عابدين  (5/ 646):
(وركنها الإيجاب والقبول وحكمها) أنواع؛ لأنها (إيداع ابتداء) ۔۔۔ (وتوكيل مع العمل) لتصرفه بأمره (وشركة إن ربح وغصب إن خالف وإن أجاز) رب المال (بعده) لصيرورته غاصبا بالمخالفة (وإجارة فاسدة إن فسدت فلا ربح) للمضارب (حينئذ بل له أجر) مثل (عمله مطلقا) ربح أو لا (بلا زيادة على المشروط) خلافا لمحمد والثلاثة’’(قوله: مطلقا) هو ظاهر الرواية قهستاني (قوله ربح أو لا) (كتاب المضاربة، ط: سعيد)
وفی سنن الترمذی: باب مَا جَاءَ فِي مَطْلِ الْغَنِيِّ أَنَّهُ ظُلْمٌ
عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " مطل الغني ظلم  الخ
 وفی صحیح البخاری،بَابُ هَلْ يُعْطَى أَكْبَرَ مِنْ سِنِّهِ:
عن ابي هريرة رضي الله عنه، ان رجلا تقاضى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاغلظ له، فهم به اصحابه، فقال: دعوه، فإن لصاحب الحق مقالا، واشتروا له بعيرا فاعطوه إياه، وقالوا: لا نجد إلا افضل من سنه، قال:" اشتروه فاعطوه إياه، فإن خيركم احسنكم قضاء".

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

۲۳/١۰/۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب