021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وصیت اورپانچ بھائیوں اورچاربہنوں میں میراث کی تقسیم کا حکم
80137میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

میرے کزن محمود احمد صدیقی ولد رضی الدین احمد صدیقی کی بہن ناصرہ خاتون زوجہ سید طارق شاہ کا دو سال پہلے انتقال ہوگیاتھا،ان کے نام ایک دکان تھی جس کی مالیت تقریباً 90 لاکھ سے ایک کروڑ تک ہے ، اس کے شوہرنے یہ دکان اپنے پیسوں سے خریدی تھی لیکن اپنےنام نہیں کرائی تھی، اب سید طارق شاہ کا بھی اس رمضان میں انتقال ہوگیاہے ،اب ان کے بھائی کے بیٹے نےمحمد احمد صدیقی سے رابطہ کیاہے  اوربتایاکہ سید طارق شاہ نے مرنے سے پہلے زبانی  ویڈیومیں یہ کہاتھا کہ میرے مرنے کے بعد اس دکان سے جتنا روپیہ ملے وہ میرے علاج میں جس نے خرچہ کیاہے اسے دیدو اوربعد میں جتنا روپیہ بچے وہ مسجد میں میرے اورزوجہ ناصرہ خاتون کے نام سے صدقہ جاریہ کے طورپر دیدو ۔

 ناصرہ خاتون کے بھائی اوربہنوں کے نام درج ذیل ہیں

١۔ محمد احمد صدیقی ۲۔مسعود احمد صدیقی         ۳۔صادقہ خاتون   ۴۔ راشدہ  خاتون    ۵۔ صالحہ خاتون

سید طارق شاہ کے بھائی اوربہنوں کے نام درج ذیل ہیں  

١۔ سیدعادل شاہ    ۲۔ عمران شاہ (ان کے بیٹے امیرعلی نے وصیت کی موبائل  ویڈیوبنائی ہے )         ۳۔سیدکامران شاہ

۴۔ سیدخالد شاہ     ۵۔ سید عامر شاہ     ٦۔ شہلازوجہ شاہد  ۷۔سطوت زوجہ جاوید صدیقی           ۸۔ مونا

۹۔ نصرت زوجہ حسیم

اب شرعی لحاظ سے یہ معلوم کرنا ہے کہ اس میں کس کا کتنا حصہ بنتاہے؟  تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو ۔

سائل نےزبانی فون پر بتایا کہ یہ دکان سید طارق شاہ صاحب نے اپنے پیسوں سے خریدی تھی اورانہی کی ملکیت تھی ،      ناصرہ مرحومہ کے صرف نام   پر تھی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ یہ دکان سید طارق شاہ نے اپنے پیسوں سے خریدی تھی اورانہی کی ملکیت تھی، بیوی ناصرہ اس کی مالک نہیں تھی صرف یہ د کان اس کے نام پر تھی لہذا  اس  دکان میں مرحومہ ناصرہ اوراس کے بہن بھائیوں اوروالدین کا کوئی حق نہیں،یہ صرف سید طارق شاہ صاحب کے ورثہ میں تقسیم ہوگی،مرحومہ ناصرہ اگرچہ ان کی بیوی تھی مگران کا انتقال  چونکہ شوہرسیدطارق شاہ صاحب کی زندگی میں ہی ہوگیا تھا اس لیے  اسے شوہر کے میراث سے کچھ نہیں ملے گا۔

باقی مرحوم سیدطارق شاہ صاحب نے زبانی ویڈیوکے ذیعے جووصیت کی تھی  وہ وصیت مرحوم کے کل مال کے ثلث(ایک تہائی) تک نافذ ہوگی  اس سے زیادہ میں ورثہ کی اجازت پر موقوف ہوگی ۔اگروہ اجازت دیں گے تو نافذہوگی ورثہ ثلث سے زائد میں نافذ نہیں ہوگی ،البتہ یہ تفصیل اس وقت  ہےجب علاج پر ہونے والے اخراجات کسی نے تبرعا کئے ہو،اگروہ اخراجات مرحوم کی اجازت سے بطورقرض کسی نے کئے ہوں تو بہرحال وہ منہاہونگے پھر اگلے مرحلےمیں اگرمال بچے تو اس کی ایک تہائی حد تک وصیت نافذ کی جائے گی اورپھر باقی مال ورثہ میں تقسیم کیاجائےگا۔تقسیم کا طریقہ کاردرج ذیل ہوگا۔

مرحوم طارق شاہ نے بوقت ِانتقال اپنی ملکیت میں مذکورہ دکان سمیت  منقولہ وغیر منقولہ مال،جائیداد،سونا، چاندی،نقدی اور ہر قسم کا چھوٹا بڑا جو کچھ ساز وسامان چھوڑا ہےاور مرحوم کا  وہ قرض جو کسی کے ذمہ  واجب ہو، يہ  سب مرحوم کا ترکہ ہے۔اس میں سے سب سے پہلے مرحوم کے کفن و دفن کے متوسط اخراجات نکالے جائیں ،البتہ اگر کسی نے بطور تبرع ادا کر دیئے ہوں تو پھر یہ اخراجات نکالنے کی ضرورت نہیں ۔ اس کے بعد مرحوم کا  وہ قرض  ادا کیا جائے  جس کی ادئیگی مرحوم کے ذمہ  واجب ہو،اس میں علاج کا خرچہ شامل ہوگا بشرطیہ مرحوم کی اجازت  سے کسی نےبطورقرض کیاہو۔ اس کے بعد  مرحوم  نے جووصیت کی ہے بقیہ ترکہ  میں سے ایک تہائی(1/3) تک اس پر عمل کیا جائےگااوراس کے بعد جوترکہ بچے وہ درج ذیل طریقے پر ورثہ میں تقسیم کیاجائے گا۔

ترکہ کو چودہ حصوں میں تقسیم کرکے مرحوم طارق شاہ کے ہربھائی کودویعنی %14.286اورہربہن کو ایک یعنی %7.143حصےدیئے جائیں گے۔

اگرمذکورہ بالاورثہ میں سےمرحوم طارق شاہ کے بعدکوئی فوت ہواہو تو اس کا ترکہ اس کےشرعی ورثہ بیوی بچوں وغیرہ کی طرف  منتقل ہوگا۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية - (6 / 447)
التركة تتعلق بها حقوق أربعة: جهاز الميت ودفنه والدين والوصية والميراث. فيبدأ أولا بجهازه وكفنه وما يحتاج إليه في دفنه بالمعروف…ثم بالدين… ثم تنفذ وصاياه من ثلث ما يبقى بعد الكفن والدين إلا أن تجيز الورثة أكثر من الثلث ثم يقسم الباقي بين الورثة على سهام الميراث.
السراجي ـــ(ص_5 /8)
قال علماءنا: تتعلق بتركت الميت حقوق أربعة مرتبة:الاول:يبدأ بتكفينه وتجهيزه من غير تبذير ولاتقتير،ثم تقضى ديونه من جميع ما بقي من ماله ،ثم تنفذ وصاياه من ثلث ما بقي بعد الدين ،ثم يقسم الباقي بين ورثته بالكتاب والسنة إجماع الامة ـ
الفتاوى الهندية (6/ 97)
لو أوصى لرجل بربع ماله ولآخر بنصف ماله إن أجازت الورثة فنصف المال للذي أوصى له بالنصف والربع للموصى له بالربع والباقي للورثة على فرائض الله تعالى ولو لم يجز الورثة تصح من الثلث۔
وفی البحر الرائق (8/ 567)
 والعصبة أربعة أصناف: عصبة بنفسه وهو جزء الميت وأصله وجزء أبيه وجزء جده الأقرب.

  سیدحکیم شاہ عفی عنہ

   دارالافتاء جامعۃ الرشید

   25/10/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب