021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وراثت کی تقسیم کو والدہ کی حیات  تک مؤخرکیاجاسکتاہے؟
80167تقسیم جائیداد کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

سوال:جوبہن بھائی والدصاحب کی وفات کےبعداس گھرمیں نہیں رہ رہے،آیااس گھرمیں رہائش پذیر افرادانہیں کرایہ اداکریں گے،اگرکرایہ اداکرناہوگاتوکس اعتبارسےکرناہوگااورکیاصورت حال ہوگی ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

عمومی طورپرشریعت کااصول یہ ہےکہ وراثت کوجنتاجلدممکن ہو،تقسیم کردیاجائےتاکہ آپس کےلڑائی جھگڑوں سےبچاجاسکے،ہاں اگرتمام ورثہ اس پرراضی ہوں کہ والدہ کی حیات تک وہ اسی مکان میں رہائش پذیر رہیں گےتواس کی بھی اجازت ہوگی ،لیکن یہ ضروری ہوگاکہ  جوورثہ اس مکان میں رہائش پذیر نہیں ہیں وہ بھی اس پرراضی ہوں،ورنہ وراثت کی تقسیم کاعمل جلدسےجلدکرناضروری ہوگا۔

اگریہ کسی وجہ سےممکن نہ ہوتودیگرورثاءجواس مکان میں نہ رہتےہوں وہ زمین کی وراثت میں اپنےحصےکےکرایہ کااس شرط پرمطالبہ کرسکتےہیں  کہ باہمی رضامندی سےیاان کےحصےکےتناسب سےکرایہ باقاعدہ طےکرلیاجائے۔

حوالہ جات
"رد المحتار " 26 / 12:( وقسم )المال المشترك( بطلب أحدهم إن انتفع كل) بحصته(بعد القسمة وبطلب ذي الكثير إن لم ينتفع الآخر لقلة حصته ) وفي الخانية : يقسم بطلب كل وعليه الفتوى ، لكن المتون على الأول فعليها للعول ( وإن تضرر الكل لم يقسم إلا برضاهم ) لئلا يعود على موضوعه بالنقض ۔
"رد المحتار" 24 / ص 263:( و ) تفسد أيضا ( بالشيوع ) بأن يؤجر نصيبا من داره أو نصيبه من دار مشتركة من غير شريكه أو من أحد شريكيه۔۔۔ ( إلا إذا آجر)كل نصيبه أو بعضه(من شريكه) فيجوز  وجوازه بكل حال ، وعليه الفتوى زيلعي وبحر معزيا للمغني۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

17/شوال      1444ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب