021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عشر اور زکوۃ کی رقم مسجد یا مدرسہ کی تعمیر یاوظائف میں دینےکا حکم
80175زکوة کابیانعشر اور خراج کے احکام

سوال

مسجد اور مدرسے کی تعمیر ، مقامی طلباء اور امام و مدرس کی تنخواہ زکوٰۃ اور عشر سے ادا کی جا سکتی ہے یا نہیں؟عدم جواز کی صورت میں حیلہ کی وضاحت فرمائیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

عشر وزکوۃ کی رقم مذکورہ مصارف میں براہ راست خرچ کرنا جائز نہیں، بلکہ اس میں تملیک مستحق ضروری ہے، لہذا تملیک کے بغیر ان مصارف میں لگانے سے زکوۃ اور عشر ادا نہ ہوگا،البتہ اگر کوئی مستحق شخص(خواہ مؤذن ہویاامام مسجد یا طالب علم وغیرہ کوئی   اور شخص)زکوۃ  یا عشرکی مد میں رقم لے کر اپنی خوشی سے مسجد یا مدرسہ میں صرف کردے تویہ جائز ہے،لیکن اس طرح کسی مستحق کو مالک بناتےہوئےتملیک کے ساتھ مذکورہ مصارف میں  صرف کی شرط لگانا جائزنہیں،اسی طرح مستحق کادلی رضامندی کےبغیرمحض مروت میں صرف کرنابھی درست نہیں،تاہم اگرکوئی ایساکرلےتو ایسی صورت میں بھی زکوۃ تو ادا ہوجائے گی،لیکن گناہ ہوگا۔(احسن الفتاوی:ج۴،ص۳۰۶)

صحیح طریقہ یہ ہے کہ  مسجدانتظامیہ یارفاہی ادارہ وغیرہ کچھ مستحق  لوگوں سے زکوۃ وعشر وغیرہ پر قبضے اور پھران کوحسب صوابدیدمسجدیا مدرسہ میں خرچ کرنے کی با قاعدہ وکالت نامہ پرکروالے۔جو انتظامیہ ایسا کر لے اس کے لیے  زکوۃ اور عشر کی رقم لے کر مذکورہ مصارف میں خرچ کرنا جائز ہوگا،لیکن  واضح رہے کہ جہاں زکوۃ اور عشر دینےوالے کوئی خاص مد  متعین کردیں تو ایسی صورت میں مذکورہ حیلہ کی وجہ سےمتعلقہ مد کے علاوہ میں خرچ کرنا ناجائزہوگا۔

حوالہ جات
۔۔۔۔۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

 ۲ ذیقعدہ۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب