021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
گیارہ ریال کے دس ریال بیچنا اور اس کا مداوا
80190خرید و فروخت اور دیگر معاملات میں پابندی لگانے کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

تقریباً بیس سے پچیس سال پہلے میرے والد صاحب سعودیہ میں کریانے کا کام کرتے تھے ۔ اس دکان میں ایک PCO تھا وہ گیارہ ریال کے دس ریال سکّوں میں دیا کرتے تھے، جو کہ PCO میں استعمال ہوتے تھے۔ اس کاروبار کو براہ راست سنبھالنے والے تو میرے والد صاحب تھے مگر میرے تایا ابّومرحوم بھی اسکے برابر حصہ دار تھے۔ وہ یہ کاروبار اس کی شرعی حیثیت جانے بغیر کیا کرتے تھے ۔ ان پیسوں کا اکثر حصہ واپس پاکستان بھیج دیا جاتا تھا۔ مذکورہ بالا صور تحال سےمتعلق چند سوالات:

  1. اس طریقہ کا روبار کی شرعی حیثیت
  2. ا گر اس مال کا کفارہ /ادائیگی لازم ہے، تو وہ کس کرنسی میں کرنی پڑے گی۔
  3. اور اس کے مداوے کیلئے اندازہ کیسے لگایا جائے گا ؟
  4. دونوں فریقین پر جرمانہ کیسے تقسیم ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1۔ یہ طریقہ کاروبار جائز نہیں، یہ  نقدی کی ہم جنس نقدی کے ساتھ خرید و فروخت ہےجس کے جائز ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ دونوں جانب نقدی برابر ہو، یعنی دس ریال کے سکوں کے لیے دس ریال ہی لیے جائیں،گیارہ ریال لینا جائز نہیں، یہ سود ہے۔

 2۔ حرام مال بغیر کسی عوض کے حاصل کیا جائے جیسےسود، رشوت وغیرہ تو وہ مالک کو لوٹانا ضروری ہے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو اس کو ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کرنا ضروری ہے ۔لہٰذا سوال میں ذکر کردہ صورت میں ہر دس ریال پر جو اضافی 1 ریال حاصل کیا گیا وہ سود ہے اور مالکان کو واپس کرنا ضروری ہے، البتہ اگر مالکان معلوم نہ ہوں توبغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کرنا ضروری ہے۔چونکہ سود ریال میں تھا لہٰذا ریال یا اس کی موجودہ قیمت کے بقدر کوئی اور کرنسی واپس یا صدقہ کرنا ضروری ہے۔

          واضح رہے کہ یہ صدقہ چونکہ اصل مالکوں کی طرف سے ہے تو اگر صدقہ کرنے والے کااپنا بالغ بیٹا یا بیٹی وغیرہ مستحق ہوں تو اُنکو بھی دے سکتے ہیں۔

3۔ اندازہ لگانے کا کوئی مخصوص طریقہ تو نہیں ، البتہ ایک ممکنہ صورت یہ ہے کہ اندازہ لگایا جائے کہ روز کتنے گاہک اس طرح کے آتے تھے جن کے ساتھ یہ سودی معاملہ کیا جاتا تھا، اور دوکان سال بھر کتنے دن کھلتی تھی، اس طرح روزانہ کا اور سال بھر کا حساب آجائے گا پھر اس کو جتنے سال کاروبار رہا اس پر ضرب دے کرکل سود کا حساب آجائے گا۔

4۔ فریقین پر ان کے حصص کے بقدر صدقہ کرنا لازم ہوگا، سوال میں ذکر کردہ صورت کے مطابق چونکہ فریقین کاروبار میں برابر کے شریک تھے لہٰذا اندازاً جتنا بھی حرام مال تھا وہ دونوں پر برابری کے ساتھ تقسیم ہوگا اور ہر ایک پر اپنے حصے کے بقدر صدقہ کرنا لازم ہے۔

حوالہ جات
الدر المختار (5/ 257)
 ( هو ) لغة الزيادة  وشرعا ( بيع الثمن بالثمن ) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ ( جنسا بجنس أو بغيرجنس)كذهب بفضة ( ويشترط ) عدم التأجيل والخيار و ( التماثل )أي التساوي وزنا(والتقابض ) بالبراجم لا بالتخلية ( قبل الافتراق ) وهو شرط بقائه صحيحا على الصحيح (إن اتحدا جنسا وإن ) وصلية ( اختلفا جودة وصياغة )
درر الحكام شرح مجلة الأحكام (4/ 538)
 لا يملك المرتشي الرشوة ولو قام المرتشي بالأمر الذي ندبه إليه الراشي تماما فلذلك إذا كان مال الرشوة موجودا فيرد عينا وإذا كان مستهلكا فيرد بدلا وإذا كان الراشي توفي فيرد إلى ورثته وبالحكم بالرد على هذا الوجه تخليص المرتشي من حكم الضمان الدنيوي أما الخلاص من الحكم الأخروي وهو الأهم واستحقاق النار فلا يحصل إلا بالتوبة والاستغفار ' الدر المنتقى في الغصب ورد المحتار ' . كذلك إذا توفي المرتشي فلا يملك وارثه الرشوة ويلزمه إعادتها إلى الراشي حتى أنه إذا توفي الرجل الذي كسبه حرام فيجب على ورثته ; أن يتحروا أصحاب ذلك المال الحرام فيردوه إليهم وإذا لم يجدوهم أن يتصدقوا بذلك المال ' الهندية في الباب العشرين في البيوعات المكروهة '

عمر فاروق

دار الافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

۴/ذو القعدہ /۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عمرفاروق بن فرقان احمد آفاق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب