021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والد اورچچاکےدباؤ میں آکرتین طلاق والے طلاق نامے پر دستخط کرنا
80269طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

   سائل کے والداور چاچا نےسائل کے اوپرذہنی دباؤڈال کرسائل سےزبردستی منسلکہ تین طلاقوں والے طلاق نامہ پر سائن کروائے،سائل سائن کرنے پر راضی نہیں تھا، مجبوراً ذہنی دباؤ کی وجہ سےاپنے آپ کو بچانے کےلیے سائن کیا،  سائل کاسوال یہ ہےکہ کیا اس سے طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟ قرآن اور حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

طلاق نامہ پر جو گواہ ہیں انہوں نے سائل کو سائن کرتے ہوئے نہیں دیکھا اگر سائل اپنی مرضی سے طلاق نامہ پر سائن کرتا تو لازمی گواہوں کی موجودگی میں کرتا، سائل کی طلاق نامہ پر سائن کرنے میں کوئی مرضی شامل نہیں تھی،سائل کے والد شدید غصہ میں تھے،سائل نے جب انکار کیا کہ میں سائن نہیں کر تا تو اس کے والد بولے کہ "سائن نہیں کیا تو اچھا نہیں ہو گا تمہارے ساتھ،اگر تم نے سائن نہ کیے تو ہم تمہارے ساتھ قطعِ تعلقی کردیں گے"سائل کو اس وقت ان سے مار پیٹ کا بھی خدشہ تھا، اسی وجہ سے سائل نے طلاق نامے پر سائن کر دیے،کیونکہ وہ صحیح بات جانتا تھا کہ زبردستی کی طلاق نہیں ہوتی، سائل کے پاس ایک حدیث بھی موجود تھی۔

         واضح رہے کہ والد نے یہ دھمکی دی کہ اگرتم نے سائن نہیں کیا توہم تمہارے ساتھ قطعِ تعلقی کرلیں گے، کیونکہ اب یہ مسئلہ ہماری عزت اور بےعزتی کا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ زبردستی میں اگرطلاق نامے پرکوئی دستخط کردے اورزبان سے کچھ نہ کہے تووہ تحریری

 طلاق واقع نہیں ہوتی مگرزبردستی سے مراد یہاں پر شرعی اکراہ ہےجس کی دو قسمیں ہیں ،ایک ملجئی جس میں جان سے مارنے یا کسی عضو کے تلف کرنے کی دھمکی دے کر طلاق دینے پر مجبور کیاجائےاوردوسری غیرملجئی جس میں مارپیٹ یا جیل میں ڈالنے کی دھمکی دیکرطلاق پر مجبورکیاجائے،دونوں قسموں میں دیگر شرائط کے علاوہ دھمکی اوریہ یقین ضروری ہے کہ اگرمتعلقہ کام نہیں کیاگیاتو دھمکی دینے والااپنی دھمکی (جس  پر اس کوقدرت بھی ہے) نافذ کردے گا۔

مسئولہ صورت میں شرعی اکراہ متحقق نہیں ہوا، اس لیے صرف قطع تعلقی کی دھمکی کوئی شرعی اکراہ نہیں ہے اوردھمکی کے بغیر مارپیٹ کے جس خوف کا سائل نے ذکرکیاہے وہ بھی شرعی اکراہ نہیں ہے کیونکہ باپ کی شفقت اوران کی موجودگی میں چاچاکی شفقت اتنی ہوتی ہے کہ جس سے تھوڑے مارکا خوف تو ہوسکتاہے لیکن بالعموم ایسا نہیں ہوتاکہ جس سے رضافوت ہوجائے اورمعاملہ شرعی اکراہ بن جائے، انسان بالعوم ان مواقع پربڑوں کاحکم ان کی ناراضگی سے بچنے کےلئے اوران کےاکرام کی خاطراوربدنامی سے بچنے کےلیے مانتاہے جوکہ شرعی اکراہ میں داخل نہیں ہے،لہذا مسئولہ صورت میں شرعی اکراہ  نہ ہونے کی وجہ سے منسلکہ طلاق نامہ میں موجود تینوں طلاقیں واقع ہوکر حرمت مغلظہ ثابت ہوگئی ہے،لہذا بحالتِ موجودہ  نہ میاں بیوی میں رجوع ہوسکتاہے اورنہ ہی حلالہ کے بغیر نیا نکاح ۔

حوالہ جات
وفی الھندیة:
"( وأما ) ( أنواعه ) فالإكراه في أصله على نوعين إما إن كان ملجئا أو غير ملجئ فالإكراه الملجئ هو الإكراه بوعيد تلف النفس أو بوعيد تلف عضو من الأعضاء والإكراه الذي هو غير ملجئ هو الإكراه بالحبس والتقييد" .(35/5)
وفی الشامیة:
"ویقع طلاق کلّ زوج بالغ عاقل ولو عبداً أو مکرهاً فإن طلاقه صحیح .... وفي البحر: أن المراد الإكراه على
التلفظ بالطلاق، فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لاتطلق؛ لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة، ولا حاجة هنا، كذا في الخانية".﴿فتاویٰ شامی،جلد:۳،صفحہ: ۲۳۶، مطلب في الإکراہ، ط:سعید﴾
وفی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 128):
الإكراه. (هو لغة حمل الإنسان على) شيء يكرهه وشرعا (فعل يوجد من المكره فيحدث في المحل معنى يصير به مدفوعا إلى الفعل الذي طلب منه) وهو نوعان تام وهو الملجئ بتلف نفس أو عضو أو ضرب مبرح وإلا فناقص وهو غير الملجئ. (وشرطه) أربعة أمور: (قدرة المكره على إيقاع ما هدد به سلطانا أو لصا) أو نحوه (و) الثاني (خوف المكره) بالفتح (إيقاعه) أي إيقاع ما هدد به (في الحال) بغلبة ظنه ليصير ملجأ (و) الثالث: (كون الشيء المكره به متلفا نفسا أو عضوا أو موجبا غما يعدم الرضا) وهذا أدنى مراتبه وهو يختلف باختلاف الأشخاص فإن الأشراف يغمون بكلام خشن، والأراذل ربما لا يغمون إلا بالضرب المبرح ابن كمال (و) الرابع: (كون المكره ممتنعا عما أكره عليه قبله) إما (لحقه) كبيع ماله (أو لحق) شخص (آخر) كإتلاف مال الغير (أو لحق الشرع) كشرب الخمر والزنا (فلو أكره بقتل أو ضرب شديد) متلف لا بسوط أو سوطين إلا على المذاكير والعين بزازية (أو حبس) أو قيد مديدين بخلاف حبس يوم أو قيده أو ضرب غير شديد إلا لذي جاه درر (حتى باع أو اشترى أو أقر أو آجر فسخ) ما عقد ولا يبطل حق الفسخ بموت أحدهما ولا بموت المشتري، ولا بالزيادة المنفصلة، وتضمن بالتعدي وسيجيء أنه يسترد وإن تداولته الأيدي (أو أمضى) لأن الإكراه الملجئ، وغير الملجئ يعدمان الرضا، والرضا شرط لصحة هذه العقود وكذا لصحة الإقرار فلذا صار له حق الفسخ والإمضاء (قوله: يعدمان الرضا) قال ابن الكمال في هامش شرحه، أخطأ صدر الشريعة في تخصيصه إعدام الرضا بغير الملجئ اهـ
البحر الرائق شرح كنز الدقائق للنسفي - (ج 16 / ص 253)
والاكراه بحبس الوالدين والاولاد لا يعد إكراها لانه ليس بإكراه ولا يعدم الرضا بخلاف حبس نفسه.
وفی بدائع الصنائع:
وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة۔ (3/187، فصل في حكم الطلاق البائن، کتاب الطلاق) 

 سیدحکیم شاہ عفی عنہ

 دارالافتاء جامعۃ الرشید

    ١۰/١١/١۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب