80292 | طلاق کے احکام | خلع اور اس کے احکام |
سوال
میری چچا زاد بہن کا نو سال پہلے ایک لڑکے سے نکاح ہوا، ابھی ان دونوں کے گھر والوں کے درمیان کچھ اختلافات ہو گئے، باتیں اس حد تک پہنچ گئیں کہ لڑکے نے شادی یعنی رخصتی سے انکار کر دیا اور ساتھ ہی لڑکی پر بے بنیاد الزامات لگانا شروع کر دیے، لڑکے نے کہا: میں دوسری جگہ شادی کروں گا اور اس کو بھی طلاق نہیں دوں گا، جب لڑکے کی طرف سے بےبنیاد الزامات لگائے گئے تو لڑکی نے بھی انکار کر دیا اور کہا کہ میں مرنا پسند کروں گی، لیکن اس لڑکے کے ساتھ شادی نہیں کروں گی، اب لڑکی طلاق مانگ رہی تھی اور لڑکا طلاق نہیں دے رہا تھا اور رخصتی کرنے کو بھی تیار نہیں، تو لڑکی نے عدالت سے خلع کی ڈگری لے لی، عدالت نے لڑکے کو فون اور ایس ایم ایس کے ذریعہ رابطہ کرنے کی کوشش کی، مگر لڑکا جواب نہیں دے رہا تھا، دعوی میں یہ کہا گیا تھا کہ لڑکا رخصتی سے انکاری ہے، اور عدالت میں لڑکی کی طرف سے تین گواہ بھی پیش کیے گئے تھے، اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ عدالتی خلع درست ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سوال میں ذکر کی گئی صورتِ حال کے مطابق لڑکے کا رخصتی سے انکار کرنااور ساتھ ہی یہ کہنا کہ میں اس کو طلاق نہیں دوں گا اس کے حق میں تعنّت کے ثبوت کے لیے کافی ہے اور پھر لڑکی کی جانب سے اس کے موقف پر عدالت میں تین گواہ بھی پیش کیے گئے تھے، اس لیے مذکورہ صورت میں عدالت کی طرف سے جاری کیا گیا فسخِ نکاح کا فیصلہ شرعاً معتبر اور نافذ ہے،لہذا فیصلہ جاری ہونے کی تاریخ سے عورت کی عدت شروع ہو چکی ہے، عدت مکمل ہونے پر خاتون شرعاً دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔
حوالہ جات
۔۔۔۔
محمد نعمان خالد
دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی
11/ذوالقعدة 1444ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |