021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مرحوم بیٹی کی وراثت کا حکم
80276میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

میری بیٹی حمیراء نثار کا انتقال ہوچکا ہے۔ اس کو میں نے  رہنے کے لیے مکان بنا کر دیا تھا۔ اس کی اپنی کوئی اولاد نہیں ہے۔میں نے اپنے رشتے کے بھانجے سے اس کا نکاح کیا تھا۔ اس کے علاوہ میری تین اور شادی شدہ حیات بیٹیاں ہیں۔ جو مکان میں نے انتقال شدہ بیٹی کو بناکر دیا تھااس میں میرے ایک داماد کے 55٪ پیسے بطورِ قرض استعمال ہوئے ہیں جو میری بیٹی اپنی حیات میں ادا نہیں کرسکی۔ میرا سوال یہ ہے کہ میرے داماد کے قرض کے پیسے نکال کر اس مکان میں میری باقی بیٹیوں کا شرعاً کیا حصہ بن سکتا ہے۔

وضاحت: سائل کی زبانی وضاحت سے معلوم ہوا کہ قرض کی رقم بیٹی نے ہی والد کے کہنے پر لی تھی۔ ورثاء میں صرف شوہر اور باپ حیات ہیں۔ ماں بیٹی سے پہلے وفات پاچکی تھی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر آپ نے مکان ہدیہ کرکے قبضہ بھی دے دیا تھا تو مکان اس بیٹی کی ملکیت ہوگا۔ اس کی وفات کے بعد وارثوں میں تقسیم ہوگا۔ باپ کی موجودگی میں بہنیں وارث نہیں بنتیں۔ لہٰذا آپ کی حیات میں آپ کی بیٹی کی وراثت میں آپ کے دیگر بیٹیوں کا کوئی شرعی حصہ نہیں بنتا۔  البتہ مرحومہ بیٹی کا شوہر اس کے وارثوں میں شامل ہے ۔ مرحومہ کے ترکہ سے اس کے ذمہ جو قرض تھا ، پہلے اسے ادا کیا جائیگا۔ پھر اگر کوئی جائز وصیّت کی ہو تو ایک تہائی سے اسے پورا کیا جائیگا۔ اس کے بعد جو باقی بچے اس میں شوہر کا نصف (50٪) حصہ ہوگا۔ باقی نصف (50٪)باپ کو ملےگا۔

حوالہ جات
تسهيل الفرائض (ص: 52)
ميراث الأخوات الشقيقات، إما بالفرض، وإما بالتعصيب بالغير، وإما بالتعصيب مع الغير.
فيرثن بالفرض بثلاثة شروط، أن لا يوجد فرع وارث، ولا ذكر من الأصول وارث، ولا معصب وهو الأخ الشقيق............ وإن وجد ذكر من الأصول وارث، فإن كان الأب، سقطت الأخوات بالإجماع، وإن كان الجد، فقد سبق ذكر الخلاف فيه، وأن الراجح سقوطهن به، فلا إرث للحواشي مع ذكر من الأصول مطلقاً على القول الراجح.
ولو هلك عن أب، وأخت شقيقة: فالمال للأب، ولا شيء للأخت، وكذلك لو كان بدل الأب جد على الراجح.
تسهيل الفرائض (ص: 35)
ميراث الزوج
يرث الزوج من زوجته النصف: إن لم يكن لها فرع وارث؛ والفرع الوارث هم الأولاد، وأولاد الأبناء وإن نزلوا، فأما أولاد البنات فهم فروع غير وارثين، فلا يحجبون من يحجبه الفرع الوارث.
ويرث الربع: إن كان لزوجته فرع وارث سواء كان منه أم من غيره؛ لقوله تعالى: {وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ} . "النساء: من الآية12"] ،

عنایت اللہ عثمانی

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

11/ذی قعدہ/ 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عنایت اللہ عثمانی بن زرغن شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے