021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شریک کا مشترک چیز پر اخراجات کا حکم
80267شرکت کے مسائلمشترک چیزوں کے اخراجات کے مسائل

سوال

مرحوم عبدالوہاب نے جو رقم مکان کی دوبارہ تعمیر میں لگائی اس کا کیا طریقہ کار ہوگا اور جو بہن نے 2004ء میں رقم ہبہ کی اس کا کیا ہوگا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مرحوم عبدالوہاب نے مکان کی دوبارہ تعمیر میں جو رقم لگائی ہے اس میں رقم واپس لینے کی تصریح ہونے اور عمارت  صرف اپنے لیے یا سب ورثاء کے لیے بنانے میں الگ الگ تفصیل ہے۔ تفصیل درج ذیل ہے:

  1. اگر مرحوم نے خرچ کرتے وقت یہ صراحت کی ہو کہ میں تعمیر کے اخراجات وصول کروں گا، تو ایسے میں عمارت سب ورثاء کی مشترک ہوگی اور مرحوم کے ورثاء کو صرف مرحوم کی صرف کردہ رقم ہی لوٹائی جائیگی۔
  2. اگر مرحوم نے عمارت سب رہنے والےورثاء کے لیے بنائی ہومگرتعمیر پر اتنے ذیادہ اخراجات کئےہوں جو عام طور پر کوئی وارث تبرعاً نہیں کرتا  اور مرحوم نے تبرع کی تصریح بھی نہ کی ہو تو اس صورت میں بھی عمارت سب ورثاء کی مشترک ہوگی اور مرحوم کے ورثاء کو صرف مرحوم کی صرف کردہ رقم لوٹائی جائیگی۔

مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں تقسیم کا طریقہ یہ ہوگا کہ مکان کی زمین سمیت قیمت معلوم کی جائے۔ اس میں پندرہ لاکھ روپے مرحوم بیٹے کے ورثاء کو دے کر باقی قیمت ورثاء میں ان کے حصوں کے مطابق تقسیم کی جائے۔

  1. اگر مرحوم نے عمارت  صرف اپنے لیے بنائی ہوتو ایسے میں عمارت اسی کی مملوک ہوگی۔ لہٰذا ایسے میں میراث کی تقسیم کا طریقہ یہ ہوگا کہ عمارت اور زمین کی الگ الگ موجودہ قیمت معلوم کی جائے۔ عمارت کی موجودہ قیمت صرف مرحوم کے ورثاء کو دی جائےاور زمین کی موجودہ قیمت سب ورثاء میں میراث کے حصوں کے مطابق تقسیم کی جائے۔

بہن کی ہبہ کردہ رقم کا حکم سوال نمبر 1 کے جواب میں ذکر کردیا ہے۔

حوالہ جات
"تنقيح الفتاوى الحامدية155/2:
والأصل أن من بنى في دار غيره بناءوأنفق في ذلك بأمر صاحبه كان البناء لصاحب الدار وللباني أن يرجع على صاحب الدار بما أنفق ۔
سئل فی رجل بنی بمالہ لنفسہ قصرا فی دار ابیہ باذنہ ثم مات ابوہ عنہ وعن ورثہ غیرہ فھل یکون القصر لبانیہ ویکون کالمستعیر ﴿الجواب﴾نعم کما صرح بذلک فی حاشیہ الاشباہ عند قولہ من بنی فی ارض غیرہ بامرہ فہو لمالکھا ومسئلة العمارة کثیر ذکرھا فی الفصول العمادیة ،و الفصوولین ،وغیرھا وعبارة االمحشی بعد قولہ ویکون کا لمستعیر فیکلف قلعھا متی شاء ۔
"مجمع الضمانات 8 / 67:
كل من بنى في دار غيره بأمره فالبناء لآمره ، ولو بنى لنفسه بلا أمره فهو له ، وله رفعه إلا أن يضر بالبناء فيمنع ۔
ولو بنى في دار غيره بأمره فالبناء لرب الأرض ، وقال بعضهم : البناء للباني ، ولو بنى بإذن رب الدار واستدلوا بما ذكر محمد أن من استعار من آخر دارا فبنى فيها بإذن ربها ، فالبناء للمستعير ، وهذا الاختلاف فيما أمر ولم يشترط الرجوع ، فأما لو شرط الرجوع بما أنفق ، فالبناء لرب الدار ، وعليه ما أنفق ألا يرى إلى ما ذكر محمد : أن من استأجر حماما ووكله ربه أن يرم ما استرم من الحمام ، ويحسب له ذلك من الأجر ففعل فالبناء لرب الحمام ، وللمستأجر على المؤجر ما أنفق ۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 747)
كل من بنى في دار غيره بأمره فالبناء لآمره ولو لنفسه بلا أمره فهو له، وله رفعه إلا أن يضر بالبناء، فيمنع ولو بنى لرب الأرض، بلا أمره ينبغي أن يكون متبرعا كما مر
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 747)
(عمر دار زوجته بماله بإذنها فالعمارة لها والنفقة دين عليها) لصحة أمرها (ولو) عمر (لنفسه بلا إذنها العمارة له) ويكون غاصبا للعرصة فيؤمر بالتفريغ بطلبها ذلك (ولها بلا إذنها فالعمارة لها وهو متطوع) في البناء فلا رجوع له ولو اختلفا في الإذن وعدمه، ولا بينة فالقول لمنكره بيمينه، وفي أن العمارة لها أو له فالقول له لأنه هو المتملك كما أفاده شيخنا

عنایت اللہ عثمانی

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

10/ذی القعدہ/ 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عنایت اللہ عثمانی بن زرغن شاہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب