021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد اور مدرسہ سے متعلق مختلف سوالات کے جوابات
80298وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

ہمارے گاؤں کا ایک چھوٹا سا مدرسہ ہے، اس کی تقریبا چار پانچ مرلے جگہ ہے، اس مدرسہ کی توسیع کی نیت سے ملحق ایک مکان تقریبا بارہ مرلے کا خریدنا چاہتے ہیں، ہم  یعنی مسجد کی انتظامیہ جگہ خریدتے وقت مندرجہ ذیل امور کی نیت کرتے ہیں:

  1. کیا ہم اس جگہ کو امام صاحب کی رہائش کے لیے استعمال کر سکتے ہیں؟
  2. کیا مدرسہ کے مفاد کی خاطر اس جگہ کو مستقبل میں فروخت کر سکتے ہیں؟
  3. کیا مستقبل میں اس جگہ کا تبادلہ بھی کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟
  4. کیا اس جگہ کو مستقبل میں مسجد کی توسیع میں شامل کر سکتے ہیں؟
  5. کیا مدرسہ کی تعمیر کو کرایہ پر دے سکتے ہیں؟ تاکہ کرایہ کی رقم مدرسہ کی آمدن میں شامل ہو جائے، نیز یہ بھی بتائیے کہ کیا مدرسہ کی تعمیر کو مستقل طور پر کرایہ پر دے سکتے ہیں؟
  6. مدرسہ سے بالکل ملحق مسجد کے واش روم ہیں، کیا ان واش رومز کی جگہ کو مدرسہ کی نئی تعمیر کے وقت جگہ میں ردو بدل کر سکتے ہیں؟جبکہ یہ واش رومز مسجد کے لیے وقف جگہ پر بنائے گئے ہیں۔
  7. مسجد کے ساتھ ملحق امام صاحب کی رہائش گاہ ہے، کیا مسجد کی کمیٹی کے مشورہ سے اس جگہ کو مستقل طور پر مسجد میں شامل کرسکتے ہیں؟ جبکہ یہ گھر مسجد کے لیے وقف جگہ پر بنایا گیا ہے، کیونکہ متولی نے مسجد کے امام صاحب کی رہائش کے لیے یہ جگہ وقف کی تھی۔

وضاحت:سائل نے بتایا کہ مدرسہ اور مسجد علیحدہ علیحدہ ہیں، البتہ ان دونوں کی انتظامیہ ایک ہے، ہم نے یہ سوچا ہے کہ فی الحال اس مکان میں امام صاحب کو رہائش دے دیں گے، پھر جب مسجد کی توسیع کر لی جائے گی تو مدرسہ کے لیے کسی اور جگہ پر نئی جگہ خرید لیں گے،البتہ مسجد اور مدرسہ کا لین دین یعنی آمد وخرچ علیحدہ علیحدہ ہے اور ان میں سے کوئی ایک دوسرے کے تابع نہیں ہے، مسجد اور مدرسہ کے درمیان پانچ چھ فٹ کی ایک گلی بھی گزرتی ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1۔ بطورِ تمہید جاننا چاہیے کہ مسجد اور مدرسہ دونوں علیحدہ علیحدہ وقف شمار ہوتے ہیں، ان دونوں کے مقاصد بھی علیحدہ علیحدہ ہیں اور وقف کے بارے میں شریعت کا اصول یہ ہے کہ کسی ایک وقف کی آمدن کو دوسرے وقف پر خرچ نہیں کیا جا سکتا، بلکہ ہر وقف کی آمدن اسی وقف پر خرچ کی جائے گی۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں چونکہ مسجد اور مدرسہ میں سے ہر ایک مستقل وقف ہے، ان میں سے کوئی ایک دوسرے کے تابع نہیں، اس لیے مدرسہ کے لیے خریدے جانے والے مکان میں امام صاحب کارہائش اختیار کرنا درست نہیں ہے، البتہ اگر مدرسہ کا یہ مکان مسجد کو کرایہ پر دے دیا جائے اور حاصل شدہ کرایہ کو مدرسہ پر خرچ کیا جائے تو اس طرح مسجد کے امام صاحب کامذکورہ مکان میں کرایہ پر رہائش اختیار کر ناجائز ہے۔

2،3،4۔  خریدے جانے والے مکان کو اگر مدرسہ کی ملکیت میں دیا جائے تو اس صورت میں اس مکان کو فروخت  بھی کر سکتے ہیں، نیز اس مکان کا کسی اور جگہ سے تبادلہ بھی کیا جا سکتا ہےاوربوقتِ ضرورت اس کو بیچ کر مسجد کی توسیع کے لیے استعمال کرنا  بھی درست ہے۔البتہ اگر یہ مکان مدرسہ پر وقف کر دیا گیا تو اس صورت میں اس کو بیچنا یا اس کا کسی دوسری جگہ کے ساتھ تبادلہ کرنا جائز نہیں، کیونکہ عام حالات میں وقف کی جگہ کو بیچنا یا تبدیل کرنا شرعاً جائز نہیں۔ اسی طرح ایسی صورت میں بیچ کر اس کو مسجد کی توسیع کےلیے بھی استعمال نہیں کیا جا سکتا۔اس لیے مذکورہ مکان کو مدرسہ پر وقف نہ کیا جائے، بلکہ مدرسہ کی ملکیت میں دے دیا جائے، تاکہ اس سے سوال میں ذکر کیے گئے مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔

5۔ جی ہاں! مدرسہ کی تعمیر کرایہ پر دینا جائز ہے، بشرطیکہ اس کا کرایہ عرف کے مطابق طے کیا جائے،  لوگوں میں معروف کرایہ سے کم طے نہ کیا جائے، کیونکہ وقف کی پراپرٹی لوگوں کے عرف سے کم کرایہ پر دینا جائز نہیں۔

6۔  مسجد کے لیے وقف جگہ کو مدرسہ کی جگہ کے ساتھ تبدیل کرنا جائز نہیں، لہذا مسجد کے واش رومز کی جگہ پر مدرسہ تعمیر کرنے کی اجازت نہیں، اگرچہ اس کے بدلے میں مدرسہ سے مسجد کو دوسری جگہ دی جائے، کیونکہ مسجد کے لیے وقف جگہ مسجد ہی کے لیے استعمال ہو گی۔

7۔سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق چونکہ  امام صاحب کی رہائش گاہ والی جگہ مسجد (امام صاحب کی رہائش گاہ کے لیےوقف جگہ بھی مصالح مسجد  میں شامل ہونے کی وجہ سےمسجد ہی کے حکم میں ہے) کے لیے وقف ہے اس لیے اس جگہ کو مسجد کی توسیع کے لیے استعمال کرنا جائز ہے۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (4/ 417) دار الفكر-بيروت:
(اشترى المتولي بمال الوقف دارا) للوقف (لا تلحق بالمنازل الموقوفة ويجوز بيعها في الأصح) لأن للزومه كلاما كثيرا ولم يوجد هاهنا
قال ابن عابدين: (قوله: ويجوز بيعها في الأصح) في البزازية بعد ذكر ما تقدم وذكر أبو الليث في الاستحسان يصير وقفا وهذا صريح في أنه المختار. اهـ. رملي. قلت: وفي التتارخانية المختار أنه يجوز بيعها إن احتاجوا إليه.
الفتاوى الهندية (2/ 461) دار الفكر،بيروت:
مسجد له مستغلات وأوقاف أراد المتولي أن يشتري من غلة الوقف للمسجد دهنا أو حصيرا أو حشيشا أو آجرا أو جصا لفرش المسجد أو حصى قالوا: إن وسع الواقف ذلك للقيم وقال: تفعل ما ترى من مصلحة المسجد كان له أن يشتري للمسجد ما شاء وإن لم يوسع ولكنه وقف لبناء المسجد وعمارة المسجد ليس للقيم أن يشتري ما ذكرنا وإن لم يعرف شرط الواقف في ذلك ينظر هذا القيم إلى من كان قبله، فإن كانوا يشترون من أوقاف المسجد الدهن والحصير والحشيش والآجر وما ذكرنا كان للقيم أن يفعل وإلا فلا، كذا في فتاوى قاضي خان.
ولو وقف على عمارته يصرف إلى بنائه وتطيينه دون تزيينه ولو قال: على مصالحه يجوز في دهنه وبواريه أيضا، كذا في خزانة المفتين۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (4/ 384) دار الفكر-بيروت:
مطلب في استبدال الوقف وشروطه (قوله: وجاز شرط الاستبدال به إلخ) اعلم أن الاستبدال على ثلاثة وجوه: الأول: أن يشرطه الواقف لنفسه أو لغيره أو لنفسه وغيره، فالاستبدال فيه جائز على الصحيح وقيل اتفاقا. والثاني: أن لا يشرطه سواء شرط عدمه أو سكت لكن صار بحيث لا ينتفع به بالكلية بأن لا يحصل منه شيء أصلا، أو لا يفي بمؤنته فهو أيضا جائز على الأصح إذا كان بإذن القاضي ورأيه المصلحة فيه. والثالث: أن لا يشرطه أيضا ولكن فيه نفع في الجملة وبدله خير منه ريعا ونفعا، وهذا لا يجوز استبداله على الأصح المختار كذا حرره العلامة قنالي زاده في رسالته الموضوعة في الاستبدال، وأطنب فيها عليه الاستدلال وهو مأخوذ من الفتح أيضا كما سنذكره عند قول الشارح لا يجوز استبدال العامر إلا في أربع ويأتي بقية شروط الجواز.
الفتاوى الهندية (2/ 462) دار الفكر،بيروت:
مسجد بجنبه فارقين يضر بحائط المسجد ضررا بينا، فأراد القيم وأهل المسجد أن يتخذ من مال المسجد حصنا بجنب حائط المسجد ليمنع الضرر عن المسجد قالوا: إن كان الوقف على مصالح المسجد جاز للقيم ذلك؛ لأن هذا من مصالح المسجد وإن كان الوقف على عمارة المسجد لا يجوز؛ لأن هذا ليس من عمارة المسجد، كذا في فتاوى قاضي خان.
الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار (ص: 371) دار الكتب العلمية:
وقف مصحفا على أهل مسجد للقراءة إن يحصون جاز، وإن وقف على المسجد جاز ويقرأ فيه، ولا يكون محصورا على هذا المسجد. وبه عرف حكم نقل كتب الاوقاف من محالها للانتفاع بها.
فتح القدير للكمال ابن الهمام (6/ 241) دار الفكر:
وله أن يبني على باب المسجد ظلة لدفع أذى المطر عن الباب من مال الوقف إن كان على مصالح المسجد، وإن كان على عمارته أو ترميمه فلا يصح، والأصح ما قاله ظهير الدين أن الوقف على عمارة المسجد ومصالح المسجد سواء.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

11/ذوالقعدة 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب