021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عدالت سے خلع لینے کا حکم
80249طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

درج ذیل نکات کی روشنی میں مشورہ عنایت فرمائیں کہ بیٹی کی اس کے شوہر سے علیحدگی کے لیے کونسا طریقہ اختیار کیا جائے؟

میں نے اپنی 18 سال کی بیٹی کی شادی دوران تعلیم اپنے بھانجے سے کرادی۔ شادی سے پہلے رشتہ طے کرتے وقت میں نے اپنی بہن سے پوچھا تھا کہ شادی کے بعد بچی کی پڑھائی کا کیا ہوگا تو بہن نے کہا کہ جہاں تک پڑھنا چاہیں پڑھتی رہیں۔شادی کے بعد بھی بیٹی کے تمام اخراجات میں نے برداشت کیے۔

میرا داماد کراچی سے باہر دوسرے شہر میں ملازمت کرتا ہے۔ اس نے اپنے کراچی آنے یا جانے کے بارے میں کبھی اپنی بیوی کو نہیں بتایا۔چونکہ میں نے بہن اور داماد کو اپنے گھر کا اوپر والا حصہ رہنے کے لیے دیا تھا تو جب وہ کراچی آتا تو میری بیٹی خود اوپر چلی جاتی ۔ اس کے کراچی سے جانے کے بعد میری بہن میری بیٹی کو نیچے بھیج دیتی ۔ گزشتہ پانچ سال سے اب تک ان کے درمیان ذہنی ہم آہنگی نہ ہوسکی اور نہ ہی شوہر کی نظر میں اس کی کوئی اہمیت اور حیثیت ہے ہمیشہ شوہر کے رویہ کی بناء پر خوفزدہ رہتی ہے۔  شوہر اس کی ذاتی ضروریات اور اخراجات کا بھی خیال نہیں رکھتا وہ بھی میں ادا کرتا رہا ہوں۔  گذشتہ مئی 2022 کو جب میری طبیعت خراب ہوئی اس وقت داماد نے بیٹی کو یہ کہہ کر گھر بھیج دیا کہ اپنے والد کے گھر جاؤ،  جب مجھے بلانا ہوگا تب آنا ۔ سال بھر سے ان کے درمیان کوئی بات چیت یا ملاقات نہیں ہوئی۔ یکم جنوری کو جب بہن اور داماد اپنے گھر منتقل ہوئے تو اپنے گھر کا پتہ بھی نہیں بتایا۔ میں نے اپنے بھائی کے ذریعے پیغام بھیجا کہ میں بیٹی اور داماد کے سلسلے میں بات کرنا چاہتا ہوں تو بہن نے بھائی کو ملنے اور مجھے پتہ بتانے سے منع کردیا۔ باوجود ان تمام باتوں کے میں اور بیٹی ان کے اچھے رویے کے انتظار کرتے رہے مگر کچھ نہ بنا ، اب بیٹی خود بھی ان وجوہات کی بنا پر علیحدگی چاہتی ہے۔ میری بہن نا مجھ سے بات کرنا چاہتی ہے اور نہ کسی اور کو شامل کرنا چاہتی ہے برائے مہربانی میری راہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

نکاح کو ختم کرنے کا سب سے بہتر طریقہ تو یہ ہے کہ کسی مناسب طریقے سے کوشش کرکے شوہر کو طلاق دینے پر آمادہ کیا جائے،اگر وہ بغیر عوض کے طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو تو پھر کسی عوض مثلا مہر وغیرہ کے بدلے اس سے خلع لینے کی کوشش کرلی جائے،اگرچہ شوہر کے قصوروار ہونے کی صورت میں اس کے لئے طلاق کے بدلے کوئی عوض لینا جائز نہیں،پھر اگر شوہر نہ طلاق دینے پر آمادہ ہو اور نہ خلع پراور نہ ہی بیوی کو ساتھ رکھ کر اس کے نان نفقہ وغیرہ حقوق ادا کرنے کے لیے تیار ہو، تو ایسے میں بیوی کے حقوق ادا نہ کرنے کی بنیاد پر فسخ نکاح کا مقدمہ دائر کرنا جائز ہے، لیکن ایسی صورت میں یہ ضروری ہوگا کہ عدالت میں دو گواہوں سے اپنے دعوی کو ثابت کردیا جائے۔  اس طرح گواہوں کے ذریعہ اپنا دعوی ثابت کرنے کے بعد اگر قاضی یا عدالت فسخ نکاح کا فیصلہ کردے تو وہ فیصلہ نافذ ہوگا اور عدت گزارنے کے بعد آپ کی بیٹی دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی لیکن اگر آپ نے گواہوں کے ذریعہ شوہر کا جرم ثابت نہیں کیا یا وہ جرم اس درجہ کا نہ ہو جس سے عدالت کو نکاح فسخ کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہو تو اس طرح کی عدالتی خلع کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہوگی۔

حوالہ جات
أحكام الأحوال الشخصية في الشريعة الإسلامية (ص: 165)
وأما القاضي فلا يطلق الزوجة بناء على طلبها إلا في خمس حالات: التطليق لعدم الإنفاق، والتطليق للعيب و التطليق للضرر، والتطليق لغيبة الزوج بلا عذر، والتطليق لحبسه.

عنایت اللہ عثمانی

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

09/ذی القعدہ/ 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عنایت اللہ عثمانی بن زرغن شاہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب