021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تنسیخ نکاح اور خلع میں فرق
80250طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

تنسیخ نکاح اور خلع کے فرق کی وضاحت فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

فسخ نکاح (تنسیخ نکاح) کا مطلب ہے رشتہ نکاح کو توڑدینا، ختم کردینا، جب عورت عدالت یا شرعی پنچایت میں دعویٰ دائر کرتی ہے کہ میرا نکاح میرے شوہر سے فلاں سبب سے (جیسے نان نفقہ نہ دینا،غیر معمولی مارپیٹ اور ظلم کرنا وغیرہ ، فسخ نکاح کے اسباب کتب فقہ میں بیان کیے گئے ہیں) ختم کردیا جائے تاکہ میں اس کی زوجیت سے آزاد ہوجاوٴں، تو قاضی اس درخواست پر غور وفکر او راحوال کی تفتیش کے بعد اگر عورت کا مطالبہ درست سمجھتا ہے تو ضابطے کی کارروائی کے بعد نکاح فسخ کردیتا ہے۔

خلع یہ ہے کہ  زوجین جب اس نتیجے پر پہنچ جائیں کہ وہ شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنی ازدواجی زندگی قائم نہیں رکھ سکتے اور شوہر بلاعوض طلاق دینے پر آمادہ نہیں ہےتو پھر بیوی نے نکاح کے موقع پر جو حق مہر لیا ہے وہ شوہر کو واپس کردےاور شوہر اس کے عوض اس کو طلاق دےدے۔ یہ طلاق بائن ہوتی ہے۔ اس کے بعد شوہر کو عدت کے اندر بھی یک طرفہ رجوع کا حق نہیں رہتا، البتہ دونوں باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں بشرطیکہ تین طلاقیں نہ دی ہوں۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 439)
الخلع (هو) لغة الإزالة، وشرعا كما في البحر (إزالة ملك النكاح المتوقفة على قبولها بلفظ الخلع أو ما في معناه).وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول.
الفتاوى الهندية (3/ 363)
وَلَوْ قَضَى بِرَدِّ نِكَاحِ الْمَرْأَةِ بِعَيْبِ عَمًى أو جُنُونٍ أو نَحْوِ ذلك يَنْفُذُ قَضَاؤُهُ لِأَنَّ عُمَرَ رضي اللَّهُ تَعَالَى عنه كان يقول يَرُدُّ الْمَرْأَةَ الزَّوْجُ بِعُيُوبٍ خَمْسَةٍ وَلَوْ قَضَى بِرَدِّ الْمَرْأَةِ الزَّوْجُ بِوَاحِدٍ من هذه الْعُيُوبِ نَفَذَ لِأَنَّ هذا مُخْتَلَفٌ فيه بين أَصْحَابِنَا رَحِمَهُمْ اللَّهُ تَعَالَى مُحَمَّدٍ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى يقول بِالرَّدِّ حاشية ابن عابدين (3/ 498)
 قوله ( وإلا بانت بالتفريق ) لأنها فرقة قبل الدخول حقيقة فكانت بائنة ولها كمال المهر وعليها العدة لوجود الخلوة الصحيحة ,بحر , قوله ( من القاضي إن أبى طلاقها ) أي إن أبى الزوج لأنه وجب عليه التسريح بالإحسان حين عجز عن الإمساك بالمعروف فإذا امتنع كان ظالما فناب عنه وأضيف فعله إليه

عنایت اللہ عثمانی

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

09/ذی القعدہ/ 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عنایت اللہ عثمانی بن زرغن شاہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب