021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اولاد کے لیے وصیت اور وراثت کی تقسیم کا حکم
80312ہبہ اور صدقہ کے مسائلکئی لوگوں کو مشترکہ طور پرکوئی چیز ہبہ کرنے کا بیان

سوال

اگر زندگی میں مکان تقسیم نہ کیا جائے تواس صورت میں وراثت کی تقسیم کس طرح ہو گی؟ جبکہ  میرے ورثاء میں  ایک بیٹی اور دو بیٹے ہوں گے، کیونکہ میری اہلیہ اور والدین کا انتقال پہلے ہو چکا ہے۔ نیز کیا اولاد کے لیے وصیت کی جا سکتی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اولاد کے لیے شرعاً اپنے مال وجائیداد کی وصیت نہیں کی جا سکتی، کیونکہ شریعت نے ترکہ میں سے ان کے حصے خود مقرر کر دیے ہیں، لہذا وفات کے بعد ہر وارث کو شریعت کے طے شدہ حصے کے مطابق ہی حصہ ملے گا، اس سے کم وبیش کرنا جائز نہیں، لہذا مذکورہ صورت میں اگر آپ کے ورثاء میں یہی  دو بیٹے اور ایک بیٹی ہو گی تو اس صورت میں چھوٹے بڑے سازو سامان، جائیداد ،نقدی اورمذکورہ مکان سمیت کل ترکہ میں سے تجہیزو تکفین کے اخراجات نکالنے، واجب الاداء قرض ادا کرنے اور جائز وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو ترکہ باقی بچے گا اس کو پانچ حصوں میں تقسیم کر کے دو دو حصے بیٹوں کو اور ایک حصہ بیٹی کو دیا جائے گا۔

نیزاس وقت باہمی رضامندی سےبعض ورثاء کے لیے مکان خود رکھ باقی ورثاء کو ان کے  حصے کی قیمت دینا بھی جائز ہو گا۔

حوالہ جات
الهداية في شرح بداية المبتدي (4/ 514) دار احياء التراث العربي، بيروت:
قال: "ولا تجوز لوارثه" لقوله عليه الصلاة والسلام: "إن الله تعالى أعطى كل ذي حق حقه، ألا لا وصية لوارث" ولأنه يتأذى البعض بإيثار البعض ففي تجويزه قطيعة الرحم ولأنه حيف بالحديث الذي رويناه، ويعتبر كونه وارثا أو غير وارث وقت الموت لا وقت الوصية لأنه تمليك مضاف إلى ما بعد الموت، وحكمه يثبت بعد الموت. "والهبة من المريض للوارث في هذا نظير الوصية" لأنها وصية حكما حتى تنفذ من الثلث، وإقرار المريض للوارث على عكسه لأنه تصرف في الحال فيعتبر ذلك وقت الإقرار.
قال: "إلا أن تجيزها الورثة" ويروى هذا الاستثناء فيما رويناه، ولأن الامتناع لحقهم فتجوز بإجازتهم؛ ولو أجاز بعض ورد بعض تجوز على المجيز بقدر حصته لولايته عليه وبطل في حق الراد.
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 198) دار احياء التراث العربي – بيروت:
قال: "وإذا كانت الشركة بين ورثة فأخرجوا أحدهم منها بمال أعطوه إياه والتركة عقار أو عروض جاز قليلا كان ما أعطوه إياه أو كثيرا" لأنه أمكن تصحيحه بيعا. وفيه أثر عثمان، فإنه صالح تماضر الأشجعية امرأة عبد الرحمن بن عوف رضي الله عنه عن ربع ثمنها على ثمانين ألف دينار.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

13/ذوالقعدة 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب