021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
چچازاد کا وراثت میں حصہ
80326میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

میرے والد (عبد الجبار ) کا انتقال 12 مارچ 2023 کو ہوا ہے۔ انکی میراث کے حوالے سے چند امور پر رہنمائی فرمائیں: 1: کیا میت کے چچا کے بیٹے عصبہ بنیں گے؟ (جبکہ میت کا کوئی بیٹا،بھائی یا والد نہیں ہے۔) 2: کس وارث کا کتنا حصہ بنے گا؟ وارثین کی تفصیل درج ذیل ہے: *عبد الجبار کے وارث:* ▪️ 4 بیٹیاں ▪️بیٹا (کوئی نہیں) ▪️1 بیوی ▪️5 بہنیں(6 بہنیں تھیں جن میں سے 1 کا میت سے پہلے ہی انتقال ہوچکا۔ اب 5 حیات ہیں) ▪️بھائی (کوئی نہیں ) ▪️والدین کا انتقال ہو چکا ہے ▪️والد (میت) کےایک ہی چچا تھے جن کا انتقال ہوچکا ہے۔ ان کے تین بیٹے ہیں اور 3 بیٹیاں ہیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آپ کے والد نے انتقال کے وقت اپنی ملکیت میں  سونا،  چاندی ،نقدی، ، جائیداد، مکانات، کاروبار، غرض جو کچھ چھوٹا، بڑا ساز و سامان چھوڑا ہے، یا اگر کسی کے ذمہ ان کا قرض تھا، تو وہ سب ان کا ترکہ یعنی میراث ہے ۔اس سے متعلق حکم یہ ہے  کہ سب سے پہلے ان کی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالے جائیں، البتہ اگر یہ اخراجات کسی نے بطورِ احسان اٹھائے ہوں تو پھر انہیں ترکہ سے نہیں نکالا جائے گا ۔اس کے بعد اگر ان  کے ذمے کسی کا قرض ہو تو وہ ادا کیا جائے۔ اس کے بعد اگر انہوں  نے کسی غیر ِوارث کے حق میں کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی(1/3) ترکہ کی حد تک اس کو پورا کیا جائے۔ اس کے بعد جو بچ جائے اس کے 72 حصے کر کے درج ذیل نقشے کے مطابق ورثاء میں تقسیم کر دیا جائے۔ آپ  کے والد صاحب  کی نرینہ اولاد نہ ہونے اور چچا زاد بھائی کے علاوہ کوئی مذکر وارث (بھائی،بھتیجا ،دادا اورچچا) نہ ہونے کی صورت میں ان کے چچا زاد بھائی  عصبہ ہوں گے اور وارث بنیں گے۔چچا زاد بہن وراثت میں حق دار  نہیں ۔

ورثاء

عددی حصے

فیصدی حصے

زوجہ

9 حصے

12.5%

(ثمن)

بیٹی  1

12 حصے

16.6666% )ثلثان)

 بیٹی  2

12 حصے

16.6666%  

(ثلثان)

بیٹی  3

12 حصے

16.6666%

( ثلثان)

بیٹی 4

12 حصے

16.6666%  (ثلثان)

چچازاد بھائی 1

5 حصے

 6.9444% (عصبہ بنفسہ)

چچازاد بھائی 2

5 حصے

 6.9444% (عصبہ بنفسہ)

چچازاد بھائی 3

5 حصے

 6.9444% (عصبہ بنفسہ)

کل

72 حصے

100 %

 

حوالہ جات
{فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ} [النساء: 11]
{فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْن} [النساء: 12]
شرح مختصر الطحاوي للجصاص (4/ 83-84)
للمرأة من ميراث زوجها الربع إذا لم يكن له ولد، ولا ولد ابنٍ، فإن كان له ولد، أو ولد ابنٍ، وإن سفل: فلها الثمن.
الفتاوى الهندية (6/ 451)
وباقي العصبات ينفرد بالميراث ذكورهم دون أخواتهم وهم أربعة أيضا: العم وابن العم وابن الأخ وابن المعتق، كذا في خزانة المفتين.

محمد فرحان

دار الافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

16/ذو القعدہ/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد فرحان بن محمد سلیم

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب