021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والدنےاپنےبھائیوں کورقم دی کہ میری چھوٹی بیٹی کی اس رقم سےشادی کروادینا
80374ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

سوال:میرے سسر کا نام محمد یوسف تھا انکی چار بیٹیاں ہیں میری سسر کی دو شادیاں ہوئی تھیں، پہلی اہلیہ کا انتقال 1999 میں ہوگیا تھا، جس سےانکی چار بیٹیاں تھیں، دوسری اہلیہ سے کوئی اولاد نہیں، میرے سسر کا انتقال2017 مارچ کے مہینے میں ہوگیا تھا ،میری اہلیہ اپنی بہنوں میں سب  سے چھوٹی بہن ہے اور میرا نکاح میری اہلیہ سے 2017کے ساتویں مہینے میں ہوا ، میرے سسر نے اپنے بھائیوں کو میری اہلیہ کی شادی کے لیے رقم دی اپنی بیٹیوں اور اپنے ایک اور بھائی کے سامنےسب بیٹیوں کی رضا مند کے ساتھ  ،کیوں کہ انہیں کینسر تھا اور انکا کہنا تھا مجھے کچھ ہوجائے تو میری بیٹی کی شادی آپ لوگ کردینا ، میرے سسر سرکاری ملازمت کیا کرتے تھے تو انکاپروویڈنٹ فنڈ اور گریجویٹی آنے میں دو سال لگے  اور فیصلہ یہ ہوا کہ جو رقم آئی ہے وہ  شریعت کے حساب کےمطابق سوتیلی والدہ اور بیٹیوں میں بٹ جائیگی اور والدہ  اُس گھر میں رہیں گی ،سب معاملات ہوگئے ، سال 2020میں میری سوتیلی ساس نے شادی کرلی، جسکی بنیاد پر گھر خالی ہوگیا اور چاروں بہنوں اور اُنکے شوہروں نے وہ گھر بیچنے کافیصلہ کرلیا ، اب ہوا کچھ یوں کہ میری اہلیہ کی تینوں بہنوں نے میری اہلیہ کو دھوکہ دیا اور دھوکہ سے دستخط کروا لیے ، جب میری اہلیہ نے تقاضا کیاکہ  گھر کے پیسو ں میں سے(میراث میں) جو میرے پیسے بنتے ہیں مجھے دیدیں تو سامنے تینوں بہنیں کہتی ہیں جو تمہاری شادی ہوئی اُس میں ہمارے پیسے بھی خرچ ہوئے ہیں وہ پیسے گھر کے پیسو ں سے پورے ہوگئے ہیں اور اب آپکو کچھ نہیں ملےگا اور جسکو بولنا ہے جاکر  بولدو جو کرنا ہے کرلو۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ والدنےاپنی زندگی میں اپنےبھائیوں کوچھوٹی بیٹی کی شادی کےلیےرقم دی تھی،اورزندگی میں وہ رقم استعمال نہیں کی گئی ،لہذاوالدکی طرف سےدی گئی رقم میں قبضہ مکمل نہیں ہوا،جبکہ ہبہ کےمکمل ہونےکےلیےشرعاقبضہ ضروری ہے،اس لیےیہ رقم چھوٹی بیٹی کی ذاتی نہیں ہوئی تھی،بلکہ والدکی وفات کےبعد یہ والدکی  باقی میراث میں شمارہوکرتمام ورثہ اس میں حصہ دار تھے۔

موجودہ صورت میں چونکہ تمام ورثہ کی رضامندی سےاسی میراث کی رقم (جس میں چھوٹی بیٹی کی شادی والی رقم بھی شامل تھی)سےشادی بھی کی گئی اور میراث بھی تقسیم کی گئی تھی،لہذااس کویہ شمارکیاجائےگاکہ والدکی میراث باہمی رضامندی سےبیوہ اوربیٹیوں میں تقسیم کردی گئی ہے۔

البتہ والدہ جس گھرمیں رہائش پذیرتھی،اس کوبعدمیں شرعی حصوں کےمطابق  تقسیم کیاجائےگا،یہ گھربھی چونکہ میراث تھا،اس لیےاس میراث میں دیگربیٹیوں کی طرح چھوٹی بیٹی کابھی برابرکاحصہ ہوگا،اس لیےبہنوں پرلازم ہےکہ جب گھرکوبیچ کرمیراث تقسیم کریں توچھوٹی بہن کو بھی برابرکاحصہ دیں۔

دیگربہنوں کایہ کہناکہ شادی میں جو پیسے خرچ ہوئے گھرکےپیسوں سے پورے ہوگئےہیں" یہ بات شرعادرست نہیں،کیونکہ اس سےپہلےاس گھرکی میراث تقسیم ہی نہیں ہوئی،اوراگربہنوں کی مراد یہ ہوکہ شادی میں بہنوں کی طرف سے ذاتی رقم بھی لگائی گئی ہےتوشرعااس کاحکم یہ ہےکہ یہ ان کی طرف سےچھوٹی بہن کےلیےہدیہ وتبرع ہوگا،اورہدیہ وتبرع ایک دفعہ کردیاجائےتوبعدمیں اس کامطالبہ کرناشرعاجائزنہیں ۔

گھرکوبیچ کرمیراث اس طرح تقسیم کی جائےگی کہ کل میراث کاآٹھواں حصہ والدہ کا ہوگا،باقی میراث چاروں بہنوں میں برابرتقسیم ہوگی۔

حوالہ جات
" شرح المجلۃ" 1/473 :یملک الموھوب لہ الموھوب بالقبض ،فالقبض شرط لثبوت الملک ۔
"شرح المجلۃ"1 /462:
وتتم(الھبۃ)بالقبض الکامل لأنہامن التبرعات والتبرع لایتم الابالقبض الکامل ۔
"الفتاوى الهندية" 35 / 169:قال في الأصل : الوكيل في باب الهبة في معنى الرسول حتى يجعل العاقد هو الموكل دون الوكيل ، وفي البقالي التوكيل بالهبة توكيل بالتسليم ، وللوكيل بالتسليم أن يوكل غيره بخلاف الوكيل بالقبض ، كذا في المحيط ۔
"تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق"11 / 346:ولا جبر ولا رجوع في التبرعات۔
"سورۃ النساء" آیت 12:وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

16/ذیقعدہ     1444ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب