021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دوسرے ملک سے امپورٹ شدہ گوشت کاحکم
80344ذبح اور ذبیحہ کے احکام ذبائح کے متفرق مسائل

سوال

سوال: سعودی عرب مے البیک، ہاردیس اور میک ڈونلڈز وغیرہ کی مرغی اور مٹن کھانا کیسا ہے۔ بہت سے لوگ کہتے ہے کے برازیل سے اور دوسرے غیرمسلم ممالک سے مرغی اور مٹن آتا ہے جوکے مشین سے ذبح ہوتا ہے اور فوڈ سپلائی کمپنی اپنی ویبسائٹ پی بتاتی ہے کے مرغی اور گوشت اسلامی حلال طریقے سے ذبح کیا ہوا ہے۔ آپ رہنمائی فرما دیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

دوسرے ملک سے درآمدشدہ گوشت  کے متعلق پانچ صورتیں اوران کے احکام درج ذیل ہیں: ۱۔غیرمسلم ملک سےجانوردرآمدکرکے مسلم ملک میں شرعی طریقہ سے ذبح کیاجائے توایسے گوشت کااستعمال جائزہے۔

۲۔ مسلمان ملک میں بکنے والے گوشت کے بارے میں یہ معلوم نہ ہوکہ وہ مقامی ہے یاباہر سے درآمدشدہ ہے، ایسی  گوشت کاکھانا اصولی طورپرجائزہے،تاہم اگراس کے غیرمسلم ملک سے درآمدشدہ ہونے کااحتمال ہوتواحتیاطا اس سے بچنابہترہے۔

۳۔غیرمسلم ملک  میں ذبح شدہ امپورٹڈ گوشت کے ڈبے پرکسی مستند دیانتدار مسلم تنظیم کی تصدیق موجود ہویامقامی علماء اوردیانتدارتاجرزبانی طورپراس کے شرعی طریقہ سے ذبح ہونے کی خبردیتے ہوں توکھاناجائزہے،کیونکہ مسلمان کی خبر واحدشرعا معتبرہوتی ہے۔

۴۔۔غیرمسلم ملک میں ذبح شدہ امپورٹڈ گوشت پرخودکافروں کی طرف سے حلال تصدیق موجودہوتواس کاشرعاکوئی اعتبارنہیں،کیونکہ حلال وحرام میں غیرمسلم کی خبرشرعا کوئی اعتبارنہیں۔

۵۔مسلم ملک سے ذبح شدہ امپورٹڈ گوشت  کاکھاناجائزہے۔

حوالہ جات
وفی الفتاوى الهندية:) ۲۲ / ۴۴۲(:
رجل اشترى من التاجر شيئا هل يلزمه السؤال أنه حلال أم حرام قالوا ينظر إن كان في بلد وزمان كان الغالب فيه هو الحلال في أسواقهم ليس على المشتري أن يسأل أنه حلال أم حرام ويبنى الحكم على الظاهر ، وإن كان الغالب هو الحرام أو كان البائع رجلا يبيع الحلال والحرام يحتاط ويسأل أنه حلال أم حرام .
فی الفتاوى الهندية) ۴۲ / ۳۸۰(:
خبر الواحد يقبل في الديانات كالحل والحرمة والطهارة والنجاسة إذا كان مسلما عدلا ذكرا أو أنثى حرا أو عبدا محدودا أو لا ، ولا يشترط لفظ الشهادة والعدد ، كذا في الوجيز للكردري ، وهكذا في محيط السرخسي والهداية ، ولا يقبل قول الكافر في الديانات إلا إذا كان قبول قول الكافر في المعاملات يتضمن قوله في الديانات ، فحينئذ تدخل الديانات في ضمن المعاملات فيقبل قوله فيها ضرورة هكذا في التبيين .
فی الفتاوى الهندية) ۴۲ / ۳۸۰(:
ولا يقبل قول الكافر في الديانات إلا إذا كان قبول قول الكافر في المعاملات يتضمن قوله في الديانات ، فحينئذ تدخل الديانات في ضمن المعاملات فيقبل قوله فيها ضرورة هكذا في التبيين .
وفی بحوث فی  قضایا فقہیة معاصرة)١/۳۴۵(:
فاللحوم التی تباع فی أ سواق البلاد الغربیة،والتی تستوردإ لی البلاد الإسلامیة،وجوہ المنع کثیرة:
۔لاسبیل إلی معرفة دیانة ذابحہ،فإن تلک البلاد یوجد فیھا وثنیون،ومجوسیون،ودھریون ومادیون بکثرة،فلایحصل الیقین بکون الذابح من أ ھل الکتاب۔
۲۔ ولوثبت بالتحقیق، أو بحکم غلبة السکان، أن ذابحہ نصرانی،فلایعرف ھل ھونصرانی فی الواقع، أوھومادی فی عقیدتہ؟ وقد سبق أن ذکرنا أن العدد الکثیر منہم لایعتقد بوجود خالق لھذا الکون،فلیس ھونصرانیا فی الواقع۔
۳۔ولوثبت بالتحقیق، أوعلی سبیل الحکم بالظاھر أنہ نصرانی،فإن المعروف من النصاری أنہم لایلتزمون بالطرق المشروعة للذکاة،بل منہم من یھلک الدابة بالخنق،ومنہم من یقتلھا بغیرفری الأدواج،ومنہ من یستعمل الطرق المشتبھة للتدویخ التی فصلناھا۔
۴۔ الثابت یقیناأن النصاری لایذکرون  اسم اللہ عندالذبح،والقول الراجح المنصور عند جمہورأھل العلم أن التسمیة شرط لحل ذبائح أھل الکتاب أیضا۔
وعندوجودھذہ الوجوہ القویة للمنع،لایجوز لمسلم أن یأکلہ ھذہ اللحوم التی تباع فی أسواق  البلاد الغربیة حتی یتیقن فی لحم معین أنہ حصل عن طریق الذکاة الشرعیة۔
وقدثبت بحدیث عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ أن الأصل فی لحوم الحیوان المنع حتی ثبت خلافہ،ولذلک منع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من الصید الذی خالط فیہ کلاب غیرکلاب الصائد۔۔۔۔ وبھذا یثبت أنہ إذااجتمع فی حیوان وجوہ مبیحة ووجوة محرمة،فالترجیح للوجوہ المحرمة،وھذاأیضایدل علی أن الأصل فی اللحوم المنع،حتی یثبت یقیناأنہ حلال،وھذاأصل ذکرہ غیرواحد من الفقہاء۔
وکذلک الحکم فی اللحوم المستوردة،فإنھاتتأتی فیھا جمیع الوجوہ الأربعة المذکورة،أما الشھادات المکتوبة علی العلب أو علی الکرتونات أنھامذبوحة علی الطریقة الإسلامیة،فقد ثبت بکثیر من البیانات أنھاشھادات لایوثق بھا۔

محمد اویس

دارالافتاء جامعة الرشید کراچی

    ۱۷/ذی قعدہ ۱۴۴۴ ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب