021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والدہ کے نام گھر وصیت کرنےکاحکم
80358وصیت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علماءکرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ  ایک گھر ہے جو  میرے والد صاحب نے اپنی زوجہ کے نام پر خریدا تھا جس کی قیمت والد نے ہی ادا کی تھی  اور وفات تک  اس میں تما م تصرفات والد صاحب ہی کرتے تھے   اسکے علاوہ ایک   گاڑی  ہے وہ بھی وفات تک والد صاحب کے زیر استعمال تھی ۔ اسی طرح والد صاحب کے  اسپین میں ایک شخص پر 3.80 تین لاکھ اسی ہزار یورو اس کے ذمہ قرض  ہیں جو کہ ابھی تک اس نے ادا نہیں کئے ہیں ، اسی طرح وہیں پرمیرے  اور والد صاحب کے اکاؤنٹ میں3،3ہزار  ٹوٹل 6 ہزار یورو موجود ہیں،والد صاحب کا انتقال ہو چکا ہے اور پسماندگان میں 3 بیٹے 2 بیٹیاں اور ایک زوجہ چھوڑی ہیں   ۔ اب اس گاڑی، گھر اور پاکستان کے باہر  ذکرکردہ جائیداد  کو جس کو والد صاحب نے اپنی زندگی میں تقسیم نہیں کیا ہے اور نہ ہی اس کے متعلق    کوئی وصیت کی ہے کا کیا حکم ہے اور ورثاء میں اس  کی  تقسیم کس طرح ہوگی ؟والسلام

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح  ہوکہ  کوئی  مکان ، دکان وغیرہ خریداری   کے وقت  بیوی   کے  نام   کرنے سے  بیوی  اس کی  مالک نہیں  بنتی ،  بلکہ مالک بننے کے لئے  ضروری  ہوتا ہے کہ باقاعدہ  طور پر  قبضے میں  دیکر مالک بنادی  جائے ،لہذا   مسئولہ  صورت  میں اگرچہ  مکان  خریدتے وقت بیوی  کانام لکھاگیا تھالیکن  سوال  کی تحریر  کے مطابق زندگی  مرحوم  خود اس  مکان میں  تصرف کرتے  رہے ، باقاعدہ   قبضے  میں دیکر بیوی  کو مالک نہیں بنایا   تھا    تو ایسے میں    وہ مکان  شوہرہی  کا مال  شمار م ہوگا   اور  انتقال  کے بعد اسی کے  ترکے   میں شامل ہوکر تقسیم ہوگا ۔

یہ بات  بھی یاد رہے  کہ اللہ تعالی  نے چونکہ   ہر وارث کے لئے  میراث میں اس کا حق   مقرر کردیا  ہے ،جو  مرحوم کے  انتقال   کے بعد ہر احال  میں اس کو   ملتا ہے ، اس لئے   وارث  کے حق میں  مال کی  وصیت   کرنا  شرعا  جائز  نہیں  ۔

لہذا  مسئولہ  صورت میں مرحوم کے  انتقال کے وقت  ان کی  ملک  میں   منقولہ غیر منقولہ جائداد﴿ چاہے تو وہ جائداد  ملک کے اندرہو  یا بیرون ملک ،﴾ سونا  ،چاندی  ،اسی طرح  نقدی   چاہے گھر میں  ہو یا   بینک میں ، یا کسی  پر قرض  اور ان کے علاوہ چھوٹا بڑا   جو بھی سامان  ان کے  پاس تھا ، سب مرحوم  کا   ترکہ ہے،  اس میں  میں  سے اولا   کفن دفن  کا متوسط خرچہ نکالا جائے ، اس کے بعد  اگر مرحوم کے ذمے کسی کا قرض  ہو تو اس  کوکل مال سے  ادا کیا جائے ،اس کے بعد  اگر مرحوم  نے کسی  غیر  وارث کے لئے کوئی   جائز وصیت کی ہوتو   تہائی مال کی  حد تک اس پر عمل کیاجائے،  اس کے بعد   مال  کو  مساوی   64حصوں  میں  تقسیم کرکے ،بیوی  کو   8حصے اور   تینوں  لڑکوں  میں  سے ہرایک کو  14،14 حصے  اور   اور دونوں  لڑکیوں میں سے  ہرایک کو    7،7 حصے  دیئے  جائیں گے ۔

حوالہ جات
  الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 655)
(ولا لوارثه وقاتله مباشرة) لا تسبيبا كما مر (إلا بإجازة ورثته) لقوله - عليه الصلاة والسلام - «لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة» يعني عند وجود وارث آخر كما يفيده آخر الحديث وسنحققه (وهم كبار)

احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

       دارالافتاء جامعة الرشید     کراچی

١۷ ذی قعدہ  ١۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب