80341 | وکیل بنانے کے احکام | متفرّق مسائل |
سوال
عید گاہ میں عید کے دن چندہ ہوتا ہے ، وہ امام صاحب اپنی ذات کے لے استعمال کر سکتا ہےیانہیں؟ یا طلبہ پر ہی خرچ کرنا ضروری ہے ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
عید گا ہ میں اگر یہ اعلان ہو کہ امام صاحب کے لئے چندہ ہورہا ہے ،اورلوگوں نے بھی امام صاحب کے لئے چندہ دیا تو ایسی صورت میں جمع شدہ چندہ کو اما م صاحب کا اپنی ذات کے لئے استعمال کرنا جائز ہے ، اور اگر طلبہ کے نام پر چندہ ہوا یا مطلقا مدرسہ کے لئے چندہ ہوا ،تو وہ چندہ انتظامیہ کی صوابدید پر مدرسہ کی ضروریات ﴿ یعنی طلبہ کاکھانا پینا اوردیگر ضرویات﴾ میں خرچ کیاجائے گا ۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 269)
وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ضعها حيث شئت،
(قوله: لولده الفقير) وإذا كان ولدا صغيرا فلا بد من كونه فقيرا أيضا لأن الصغير يعد غنيا بغنى أبيه أفاده ط عن أبي السعود وهذا حيث لم يأمره بالدفع إلى معين؛ إذ لو خالف ففيه قولان حكاهما في القنية. وذكر في البحر أن القواعد تشهد للقول بأنه لا يضمن لقولهم: لو نذر التصدق على فلان له أن يتصدق على غيره. اهـ.
أقول: وفيه نظر لأن تعيين الزمان والمكان والدرهم والفقير غير معتبر في النذر لأن الداخل تحته ما هو قربة، وهو أصل التصدق دون التعيين فيبطل، وتلزم القربة كما صرحوا به، وهنا الوكيل إنما يستفيد التصرف من الموكل وقد أمره بالدفع إلى فلان فلا يملك الدفع إلى غيره كما لو أوصى لزيد بكذا ليس للوصي الدفع إلى غيره فتأمل
احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ
دارالافتاء جامعة الرشید کراچی
١۸ ذی قعدہ ١۴۴۴ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | احسان اللہ شائق | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |