021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اللہ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ آپ کا دل دکھایا تو دوماہ کے روزے رکھوں گا
80386قسم منت اور نذر کے احکاممتفرّق مسائل

سوال

میری پیاری بیوی میں آپ سے بہت پیار کرتا ہوں،میں معافی چاہتا ہوں کہ میں نے مذاق میں دوسری شادی کی بات کر دی میں قسم کھاتا ہوں کہ میں آپ سے بہت پیار کرتا ہوں۔میں آپ کو دوکھ دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔میں اللہ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ آپ کا دل دُکھایا، آپ میری وجہ سے روئی تو میں دو ماہ کے روزے رکھوں گا یہ میری سزا ہو گی اب خوش  رہو۔

سوال یہ ہے کہ دو ماہ کے روزے رکھنے کے بعد دوبارہ پھر گھر میں مسئلہ ہو گیا تو اس نے دوبارہ پھر دو ماہ کے روزے رکھے، اس طرح تقریبا وہ آٹھ ماہ سے مسلسل روزے رکھ رہا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بطورِ تمہید جاننا چاہیے کہ فقہائے کرام نے نذر کی دو صورتیں ذکر فرمائی ہیں:

پہلی صورت: پہلی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص کسی ایسی شرط پر نذر کو معلق کرے کہ جس سے اس کا مقصود اس شرط کا پایا جانا ہو، جیسے کسی نے کہا اگر اللہ نے مجھے شفا دے دی تو میں ایک ماہ کے روزے رکھوں گا یا میرا فلاں کام ہو گیا تو میں ایک ہزار روپیہ  صدقہ کروں گا وغیرہ۔ اس صورت کا حکم یہ ہے کہ وہ کام ہو جانے کی صورت میں اس پر وہی چیز واجب ہو گی جس کی اس نے نذر مانی ہے، لہذا پہلی مثال میں ایک ماہ کے روزے رکھنا اور دوسری مثال میں ایک ہزار روپیہ صدقہ کرنا ہو گا۔

دوسری صورت: دوسری صورت یہ ہے کہ کسی ایسی شرط کے ساتھ نذر کو معلق کیا جائے کہ جس سے بچنا مقصود ہو، جیسے کوئی شخص یوں کہے کہ اگر میں نے فلاں کام کیا تو میں ایک ماہ کے روزے رکھوں گاوغیرہ۔اس صورت کے حکم میں فقہائے کرام رحمہم اللہ کے دو قول ہیں:

پہلا قول ظاہر الروایہ اور حنفیہ کے متون میں منقول ہے  وہ یہ کہ اس کا حکم بھی پہلی صورت کی طرح ہے، یعنی شرط پائے جانے کی صورت میں اس پر وہی چیز واجب ہو گی، جس کی اس نے نذر مانی تھی۔دوسرا قول صاحبِ ہدایہ رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی طرف نسبت کرتے ہوئے یہ نقل کیا ہے کہ چونکہ اس کا مقصود اس فعل سے بچنا تھا، اس لیے اس میں یمین یعنی قسم کا معنی بھی پایا جاتا ہے، لہذا اس کو اختیار ہو گا کہ اگر چاہے تو وہی چیز ادا کردے جس کی اس نے نذر مانی اور اگر چاہے تو قسم کا کفارہ ادا کر دے، صاحبِ ہدایہ رحمہ اللہ نے نذر کی ان دونوں صورتوں کے حکم میں تفصیل کو صحیح قرار دیا ہے اور پھر ان کے بعد کے فقہائے کرام رحمہم اللہ نے بھی اس تفصیل کو قبول کیا ہے اور علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ نے تو بعض مشائخ کے حوالے سے اس پر فتوی کی بھی تصریح کی ہے اور اس کی وجہ اس زمانہ میں عمومِ بلوی کا ہونا ذکر کی ہے۔

اس تمہید کے بعد سوال کا جواب یہ ہے کہ چونکہ سائل کا مقصود اپنی بیوی کو تکلیف دینے سے بچنا تھا، لہذا اس کا تعلق بھی نذر کی دوسری صورت کےساتھ ہے، اس لیے شرط پائے جانے کی صورت میں سائل کو اختیار تھا کہ اگر وہ چاہتا تو دو ماہ کے روزے رکھ لیتا اور اگر چاہتا تو قسم کا کفارہ ادا کر دیتا۔ اب چونکہ وہ  دو ماہ کے روزے رکھ چکا ہے اور سوال میں تکرارِ شرط کا بھی ذکر نہیں ہے کہ وہ جب بھی بیوی کو تکلیف پہنچائے گا تو دو ماہ کےروزےرکھے گا، بلکہ اس نے صرف یہ کہا تھا کہ "آئندہ آپ کا دل دُکھایا، آپ میری وجہ سے روئی تو میں دو ماہ کے روزے رکھوں گا " اور اس طرح کے کلام میں ایک مرتبہ شرط اور جزاء کےپائے جانے سے  شرعاًنذر ختم ہو جاتی ہے، لہذا اب سائل کی طرف سے بیوی کو تکلیف پہنچنے پر اس کے ذمہ کوئی چیز لازم نہیں ہو گی، اگرچہ بغیرکسی وجہ کے دانستہ طور پر بیوی کو تکلیف پہنچانا ناجائز اور گناہ ہے، جس سے بچنا ضروری ہے۔

حوالہ جات
الهداية في شرح بداية المبتدي (2/ 321) دار احياء التراث العربي، بيروت:
" ومن نذر نذرا مطلقا فعليه الوفاء " لقوله عليه الصلاة والسلام: " من نذر وسمى فعليه الوفاء بما سمى " " وإن علق النذر بشرط فوجد الشرط فعليه الوفاء بنفس النذر " لإطلاق الحديث ولأن المعلق بشرط كالمنجز عنده " وعن أبي حنيفة رحمه الله أنه رجع عنه وقال إذا قال إن فعلت كذا فعلي حجة أو صوم سنة أو صدقة ما أملكه أجزأه من ذلك كفارة يمين وهو قول محمد رحمه الله " ويخرج عن العهدة بالوفاء بما سمى أيضا وهذا إذا كان شرطا لا يريد كونه لأن فيه معنى اليمين وهو المنع وهو بظاهره نذر فيتخير ويميل إلى أي الجهتين شاء بخلاف ما إذا كان شرطا يريد كونه كقوله إن شفى الله مريضي لانعدام معنى اليمين فيه وهو المنع وهذا التفصيل هو الصحيح.
 اللباب في شرح الكتاب (4/ 11) المكتبة العلمية، بيروت:
(ومن نذر نذراً مطلقاً) أي غير معلق بشرط، وهو عبادة مقصودة، وكا من جنسه واجبٌ (فعليه الوفاء به) أي: بما نذره، لقوله صلى الله عليه وسلم: (من نذر وسمى فعليه الوفاء بما سمى) ، هداية (وإن علق نذره بشرط) فوجد الشرط المعلق عليه (فعليه الوفاء بنفس النذر) الذي سماه لإطلاق الحديث، ولأن المعلق بالشرط كالمنجز عنده (وروى أن أبا حنيفة رجع عن ذلك، وقال) : (إذا قال) الناذر: (إن فعلت كذا فعلي حجة أو صوم سنة أو صدقة ما أملكه)
أو نحو ذلك (أجزأه من ذلك كفارة يمين، وهو قول محمد) ويخرج عن العهدة بالوفاء بما سمى أيضاً، قال في الهداية: وهذا إذا كان شرطاً لا يريد كونه؛ لأن فيه معنى اليمين، وهو بظاهره نذر، فيتخير ويميل إلى أي الجهتين شاء، بخلاف ما إذا كان شرطا يريد كونه، كقوله: إن شفى الله مريضي؛ لانعدام معنى اليمين به، وهذا التفصيل هو الصحيح، اهـ. وفي شرح الزاهدي: وهذا التفصيل أصح.
الاختيار لتعليل المختار (4/ 77) دار الكتب العلمية، بيروت:
(وعن أبي حنيفة - رحمه الله - آخرا: أنه يجزئه كفارة يمين إذا كان شرطا لا يريد وجوده) كقوله: إن كلمت فلانا أو دخلت الدار فعلي صوم سنة أو صدقة ما أملكه، وهو قول محمد - رحمه الله - واختاره بعض المشايخ للبلوى والضرورة، ولو أدى ما التزمه يخرج عن العهدة أيضا لأن فيه معنى اليمين وهو المنع، وهو نذر لفظا فيختار أي الجهتين شاء؛ ولو كان شرطا يريد وجوده كقوله: إن شفى الله مريضي أو قضى ديني أو قدمت من سفري لا يجزيه إلا الوفاء بما سمى لأنه نذر بصيغته وليس فيه معنى اليمين.
البحر الرائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (4/ 320) دار الكتاب الإسلامي:
(قوله: ومن نذر نذرا مطلقا، أو معلقا بشرط ووجد وفى به) أي وفى بالمنذور لقوله - عليه السلام - «من نذر وسمى فعليه الوفاء بما سمى» وهو بإطلاقه يشمل المنجز والمعلق ولأن المعلق بالشرط كالمنجز عنده أطلقه فشمل ما إذا علقه بشرط يريد كونه أو لا وعن أبي حنيفة أنه رجع عنه فقال إن فعلت كذا فعلي حجة، أو صوم سنة أو صدقة ما أملكه أجزأه عن ذلك كفارة يمين وهو قول محمد ويخرج عن العهدة بالوفاء بما سمى أيضا إذا كان شرطا لا يريد كونه؛ لأن فيه معنى اليمين وهو المنع وهو بظاهره نذر فيتخير ويميل إلى أي الجهتين شاء بخلاف ما إذا كان شرطا يريد كونه كقوله إن شفى الله مريضي لانعدام معنى اليمين فيه قال في الهداية وهذا التفصيل هو الصحيح وبه كان يفتي إسماعيل الزاهد كما في الظهيرية وقال الولوالجي: مشايخ بلخ وبخارى يفتون بهذا وهو اختيار شمس الأئمة - ولكثرة البلوى في هذا الزمان - وظاهر الرواية كما في المختصر للحديث المتقدم، ووجه الصحيح حديث مسلم «كفارة النذر كفارة اليمين» وهو يقتضي السقوط بالكفارة مطلقا فتعارضا فيحمل مقتضى الإيفاء بعينه على المنجز، أو المعلق بشرط يريد كونه وحديث مسلم على المعلق بشرط لا يريد كونه لأنه إذا علقه بشرط لا يريده يعلم منه أنه لم يرد كونه المنذور حيث جعله مانعا من فعل ذلك الشرط، مثل دخول الدار وكلام زيد؛ لأن تعليقه حينئذ لمنع نفسه عنه.
الأصل المعروف بالمبسوط للشيباني (3/ 405) إدارة القرآن والعلوم الإسلامية – كراتشي:
وأما المشي إلى بيت الله تعالى والحج والعمرة والنذر والصيام وكل شيء يتقرب به العبد إلى ربه عز وجل حلف به رجل فقال رجل آخر على مثل ما حلفت به إن فعلت ففعل الثاني فانه عليه وكذلك لو قال الأول على عتق نسمة إن فعلت كذا وكذا ففعل إن عليه ذلك لأنه قربة إلى الله تعالى فعليه الوفاء بذلك عتق نسمة.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3/ 738) دار الفكر-بيروت: 
 اعلم أن المذكور في كتب ظاهر الرواية أن المعلق يجب الوفاء به مطلقا: أي سواء كان الشرط مما يراد كونه أي يطلب حصوله كإن شفى الله مريضي أو لا كإن كلمت زيدا أو دخلت الدار فكذا، وهو المسمى عند الشافعية نذر اللجاج وروي عن أبي حنيفة التفصيل المذكور هنا وأنه رجع إليه قبل موته بسبعة أيام وفي الهداية أنه قول محمد وهو الصحيح. اهـ. ومشى عليه أصحاب المتون كالمختار والمجمع ومختصر النقاية والملتقى وغيرها، وهو مذهب الشافعي، وذكر في الفتح أنه المروي في النوادر وأنه مختار المحققين وقد انعكس الأمر على صاحب البحر، فظن أن هذا لا أصل له في الرواية، وأن رواية النوادر أنه مخير فيهما مطلقا وأن في الخلاصة قال: وبه يفتى وقد علمت أن المروي في النوادر هو التفصيل المذكور، وذكر في النهر أن الذي في الخلاصة هو التعليق بما لا يراد كونه فالإطلاق ممنوع. اهـ.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

23/ذوالقعدة 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب