021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
"یہ میرا آخری فیصلہ ہے کہ آپ اس سے شادی کرو”سے طلاق کاحکم
80420طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،میرا نام محسن بی بی ہے ،میں نے ایک مسئلہ پوچھنا تھا،وہ یہ ہے کہ میں شادی شدہ عورت ہوں، میرے شوہر کو میرے پرانے تعلقات کا پتہ چلا تو انہوں نے مجھے بٹھایا اور سوالات پوچھنا شروع کیے کہ آپ کا کیا تعلق تھا اس کے ساتھ؟ میں نے سب سوالوں کا جواب دیا، بالآخر اس نے پوچھا کہ اب بھی وہ آپ کے دل و دماغ میں ہے؟ پہلے تو میں خاموش رہی ،لیکن اس نے کہا کہ کھل کر بتاؤ تاکہ مجھے پتہ چلے، کہا، اب بھی وہ میرے دل میں ہے، تو اس نے پوچھا کہ اگر میں آپ کو چھوڑ دوں اور آپ اس سے شادی کرو تو کیا آپ خوش رہو گی؟ میں نے کہا: ہاں،تو اس نے کہا کہ آپ اس کے پاس جانا چاہتی ہو؟میں نے کہا: ہاں۔اس نے کہا: اچھا تو پھر یہ میرا آخری فیصلہ ہے کہ آپ اس سے شادی کرو،آپ اس کے ساتھ خوش رہوگی،کئی بار اس نے یہ فیصلہ سنایا غصہ میں بھی کہا، روتے ہوئےبھی کہا،خیر رات کو میں سو گئی اور جب رات کو آنکھ کھلی تو وہ گھر سے باہر گلی میں بیٹھے ہوئے تھے،میں نے کہا کہ اندر آجاو سوچ سمجھ کر فیصلہ کرو،جلدبازی نہ کرو،اس نے جواب میں یہ کہا:نہیں،یہ میرا آخری فیصلہ ہے کہ آپ اس سے شادی کرو،پھر دن کو کہا کہ آپ نے اپنا سامان تیار کیا ہے کہ نہیں؟ سامان تیار کرو اور یہ بھی کہا کہ شادی پر جتنا خرچ آتا ہے وہ بھی میں دونگا، بس شادی خاموشی سے کرنا، زیادہ خوشی نہ منانا ،تاکہ مجھے دکھ نہ ہو اور بچے کو کسی چیز کی کمی نہیں دینی، پیسوں کی ضرورت ہو تو مجھ سے رابطہ کرنا ،لیکن رابطہ اس بندے نے کرنا ہے، آپ نے رابطہ نہیں کرنا،اب جب میں نے کسی سے مسئلہ پوچھا تو بتایا گیا کہ نکاح ٹوٹ چکا ہے ،لیکن شوہر نہیں مان رہا، کہہ رہا ہے کہ نہیں ،میری نیت طلاق کی نہیں تھی، براہ کرم اس مسئلہ کا شرعی حکم بتا دیں شکریہ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شوہر کا یہ جملہ" یہ میرا آخری فیصلہ ہے کہ آپ اس سے شادی کرو "کنایات میں سے ہے،اگروہ اس

جملے سے طلاق کی نیت کا  حلفیہ انکار کررہاہے،تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوئی ہے،آیندہ کےلیے ایسی باتوں سے احتراز کرنالازم ہے۔تاہم یہ یادر ہے کہ نیت دل کا فعل ہے، جس کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، لہذا اگر اس نے غلطی بیانی اورجھوٹ بول کر اپنے مقصد کا فتوی لے لیا تو اس کا گناہ اسی کو ہو گا، مفتی پر اس کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہو گی۔

حوالہ جات
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (2/ 217):
والكنايات ثلاثة أقسام قسم منها يصلح جوابا ولا يصلح ردا ولا شتما وهي ثلاثة ألفاظ أمرك بيدك اختاري واعتدي ومرادفها وقسم يصلح جوابا وشتما ولا يصلح ردا وهي خمسة ألفاظ خلية برية بتة بائن حرام ومرادفها، وقسم يصلح جوابا وردا ولا يصلح سبا وشتيمة وهي خمسة ألفاظ اخرجي واذهبي اغربي قومي تقنعي ومرادفها ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق بشيء منها إلا بالنية للاحتمال والقول قوله مع يمينه في عدم النية وفي حال مذاكرة الطلاق وهي أن تسأله المرأة طلاقها أو يسأله أجنبي يقع في القضاء بكل لفظ لا يصلح للرد وهي القسم الأول والثاني ولا يصدق قوله في عدم النية؛ لأن الظاهر أنه أراد به الجواب؛ لأن القسمين لا يصلحان للرد والقسم الثالث وإن كان يصلح للشتم لكن الظاهر يخالفه؛ لأن السب غير مناسب في هذه الحالة فتعين الجواب ولا يقال وجب أن يصدق في غير الطلاق؛ لأنه غير حقيقة فيه أيضا؛ لأنا نقول إنما يصدق في الحقيقة لما أنه يخطر بالبال وهنا لما ذكر فقد خطر بالبال فكلما كان أشد خطرا بالبال كان أولى ولهذا قلنا في هذه الحالة لا يقع بما يقصد به الرد وهو القسم الثالث لاحتمال الرد لخطرانه بالبال وفي حالة الغضب لا يقع بكل لفظ يصلح للسب والرد وهو القسم الثاني والثالث؛ لأنه يحتمل الرد والشتم ولا ينافيه حالة الغضب ويقع بكل لفظ لا يصلح لهما بل يصلح للجواب فقط وهو القسم الأول لظاهر حاله.
 (قوله وقسم يصلح جوابا وردا) أي ردا لكلام المرأة عند سؤالها الطلاق اهـ ومعنى الرد في هذه أي اشتغلي بالتقنع الذي هو أهم لك من القناع، وكذا أخواه ويجوز فيه بخصوصه كونه من القناعة. اهـ. فتح (قوله وهي خمسة ألفاظ) قال الأتقاني وهو سبعة ألفاظ ذكرها الصدر الشهيد في الجامع الصغير اخرجي اذهبي قومي اغربي تقنعي استبرئي تخمري، وذكر في شرح أبي نصر تزوجي أيضا وهو في معنى ابتغي الأزواج۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق (3/ 326):
وحاصل ما في الخانية أن من الكنايات ثلاثة عشر لا يعتبر فيها دلالة الحال ولا تقع إلا بالنية: حبلك على غاربك، تقنعي، تخمري، استتري، قومي، اخرجي، اذهبي، انتقلي، انطلقي، تزوجي، اعزبي، لا نكاح لي عليك، وهبتك لأهلك، وفيما عداها تعتبر ` الدلالة

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

23/ذیقعدہ1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب