021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ڈاکو پر گولی چلانے کا حکم
80472.62حدود و تعزیرات کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

آج کے دور میں اسٹریٹ کرائم بہت ہو رہے ہیں۔ کافی وڈیوز دیکھی ہیں، چور واردات کرتے ہوئے مزاحمت کرنے والے کو جان سے مار دیتے ہیں۔ یہ گناہ ہے۔ لیکن یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ آج کل لوگ اپنی حفاظت کے لیے اسلحہ رکھتے ہیں اور چور جب چوری کرنے کے بعد جانے لگتا ہے تو اس پر گولی چلاتے ہیں۔ کیا ایسا کرنا شرعاً درست ہے؟ کیونکہ اکثر اس سے چور کی جان بھی چلی جاتی ہے۔ برائے کرم، اس پر قرآن اور حدیث کی روشنی ڈالیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اپنے مال و جان کا تحفظ انسان کا شرعی حق ہے، لہٰذا اگر ڈاکو سے جان و مال ضائع ہونے کا امکان ہو، یا سوال میں ذکر کردہ صورت کے مطابق ڈاکو اسلحہ کے زور پر قیمتی مال چھین کر بھاگ جائیں، اور ان کو گولی چلا کر قابو کرنے کے علاوہ  کوئی چارہ نہ ہو تو اپنے جان و مال کی حفاظت کے لیے ڈاکوؤں پر گولی چلانے کی گنجائش ہے۔ نیز ایسی صورت میں اگر ڈاکو کی جان چلی جائے تو مارنے والے پر قصاص لازم ہے اور نہ ہی دیت (خوں بہا) ہے۔

حوالہ جات
الدر المختار (117/4):
"(ويجوز أن يقاتل دون ماله وإن لم يبلغ نصابا، ويقتل من يقاتله عليه)."
رد المحتار (394/15):
"(قوله: ويجوز أن يقاتل دون ماله) أي تحت ماله أو فوقه أو قدامه أو وراءه، فإن لفظ دون يأتي لمعان المناسب منها ما ذكرنا. وقال بعضهم: على ماله. (قوله: وإن لم يبلغ نصابا) أي نصاب السرقة وهو عشرة دراهم كما في منية المفتي. وفي التجنيس: دخل اللص دارا وأخرج المتاع فله أن يقاتله ما دام المتاع معه لقوله عليه الصلاة والسلام " { قاتل دون مالك } " فإن رمى به ليس له أن يقتله ؛ لأنه لا يتناوله الحديث. وفي البزازية وغيرها: رجل قتله رب الدار ، فإن برهن أنه كابره فدمه هدر ، وإلا فإن لم يكن المقتول معروفا بالسرقة والشر قتل به قصاصا ، وإن كان منهما تجب الدية في ماله استحسانا؛ لأن دلالة الحال أورثت شبهة في القصاص لا في المال. وفي الفتح: أخذ اللصوص متاع قوم فاستغاثوا بقوم فخرجوا في طلبهم ، فإن كان أرباب المتاع معهم أو غابوا لكن يعرفون مكانهم ويقدرون على رد المتاع عليهم حل لهم قتال اللصوص ، وإن كانوا لا يعرفون مكانهم ولا يقدرون على الرد لا يحل وتمامه فيه."
فتح القدير (372/12):
"ولو أن لصوصا أخذوا متاع قوم، فاستعانوا بقوم وخرجوا في طلبهم، إن كان أرباب المتاع معهم، حل قتالهم. وكذا إذا غابوا، والخارجون يعرفون مكانهم ويقدرون على رد المتاع عليهم، وإن كانوا لا يعرفون مكانهم ولا يقدرون على الرد عليهم، لا يجوز لهم أن يقاتلوهم؛ لأن القتال للاسترداد للرد على أرباب الأموال، ولا قدرة على الرد. ولو اقتتلوا مع قاطع، فقتلوه لا شيء عليهم؛ لأنهم قتلوه لأجل مالهم، فإن فر منهم إلى موضع أو تركوه، لا يقدر على قطع الطريق عليهم، فقتلوه، كان عليهم الدية؛ لأنهم قتلوه لا لأجل مالهم. وكذا لو فر رجل من القطاع، فلحقوه، وقد ألقى نفسه في مكان لا يقدر معه على قطع الطريق، فقتلوه كان عليهم الدية؛ لأن قتلهم إياه لا لأجل الخوف على الأموال."

محمد مسعود الحسن صدیقی

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

25/ذو القعدة/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مسعود الحسن صدیقی ولد احمد حسن صدیقی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب