021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
انبیاء و اولیاء سے توسُّل کا حکم
80475ذکر،دعاء اور تعویذات کے مسائلرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام بھیجنے کے مسائل ) درود سلام کے (

سوال

I would like to know if Waseela through Auliyas [dead or alive] and through Prophets like Muhammad Sallalahu alaihi was sallam is permissible. If YES then what is the procedure to do Waseela. Provide quran and hadith refernces as much as possible.

خلاصۂ سوال: کیا انبیاء و اولیاء سے توسُّل جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو اس کا شرعی طریقۂ کار کیا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اپنے کسی نیک عمل کے وسیلے سے دعا کرنا بالاتفاق جائز ہے، البتہ کسی نیک شخص (نبی یا ولی) کے وسیلے سے دعا کرنے میں توسُّل کے معنیٰ و مفہوم کے لحاظ سے درجِ ذیل تفصیل ہے:

1. اگر اللہ تعالیٰ سے نیک بندے کے وسیلے سے دعا مانگتے وقت یہ خیال یا عقیدہ ہوکہ دینے والی اصل ذات تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے میری مطلوب شئی اس نیک بندے کے حوالے کردی ہے، چنانچہ دعا میں اللہ تعالیٰ کا نامِ گرامی صرف برکت کے لیے ذکر کیا جائے، اور اصل مقصد نیک بندے سے دعا مانگنی ہو، تو یہ بالاتفاق شرک ہے اور حرام ہے۔

2. اگر نیک شخص کے وسیلے سے دعا مانگنے کا مقصد یہ ہوکہ اللہ تعالیٰ اُس شخص کو اختیارات دے دیں گے، پھر وہ دعا مانگنے والی کی مراد پوری کردے گا، تو یہ بھی شرک اور حرام ہے۔

3. اگر نیک شخص کے وسیلے سے دعا مانگنا اس عقیدہ یا خیال سے ہوکہ اللہ تعالیٰ اُس کی وجہ سے دعا ضرور قبول کرلیتے ہیں، تو یہ بھی ناجائز اور حرام ہے۔

4. اگر نیک شخص کے وسیلے سے دعا مانگنے کا مقصد اللہ تعالیٰ کو اُس کے نام کی قسم دے کر دعا کی قبولیت کی امید کی جائے، تو یہ بھی ناجائز ہے؛ کیونکہ مخلوق کے نام پر قسم اٹھانا جائز نہیں ہے۔

5. اگر نیک شخص کے وسیلے سے دعا مانگنے کا مقصد یہ ہوکہ وہ اللہ کا نیک بندہ ہے، اللہ تعالیٰ اُس سے محبت فرماتے ہیں، اور مَیں بھی اس وجہ سے اُس سے محبت کرتا ہوں، اس لیے اُس شخص کے ساتھ اللہ تعالی کی محبت کا واسطہ دے کر یا اس نیک شخص کے ساتھ خود محبت رکھنے کے عمل کا واسطہ دے کر دعا مانگی جائے تو یہ صورت جائز ہے۔ کیونکہ پہلی صورت میں یہ اللہ تعالیٰ کی صفت اور دوسری صورت میں یہ اپنے نیک عمل کو وسیلہ بنانے کی صورت ہے جوکہ جائز ہے۔

مذکورہ بالا پانچوں صورتوں میں زندہ اور وفات پاجانے والے اولیاء و انبیاء کا حکم یکساں ہے۔

حوالہ جات
سنن الترمذي (569/5):
عن عثمان بن حنيف، أن رجلا ضرير البصر أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: ادع الله أن يعافيني قال: «إن شئت دعوت، وإن شئت صبرت فهو خير لك». قال: فادعه، قال: فأمره أن يتوضأ فيحسن وضوءه ويدعو بهذا الدعاء: «اللهم إني أسألك وأتوجه إليك بنبيك محمد نبي الرحمة، إني توجهت بك إلى ربي في حاجتي هذه لتقضى لي، اللهم فشفعه في».
تکملة فتح الملهم (477/5):
"إن حدیث الباب یدل علی جواز التوسل في الدعاء بالأعمال الصالحة. أما التوسل بالذوات والأشخاص فقد کثر فیه کلام العلماء، وظهرت فیه مناظرات ربما أدت بعض المتجادلین إلی تضلیل بعضهم بعضا. ولو نظر الإنسان في المسألة بعین الإنصاف مجردة عن العصبیة المذهبیة، لظهر أن هذا الخلاف بین العلماء من أهل الحق لایرجع إلی کثیر طائل، بل ربما نشأت المجادلات بسوء التفاهم دون تعیین المعنی المقصود من التوسل بالذوات. والواقع أن کلمة التوسل مجملة، لا ینبغي التسارع في الحکم علیها إلا بعد تعیین المراد منها. والذي یظهر بعد التتبع أن هذه الکلمة محتملة لمعانٍ آتیة:
الأول: أن یکون مقصود التوسل أن المعطي الحقیقي هو الله - سبحانه وتعالی -، ولکنه فوض هذه الأمور إلی عبد من عباده الصالحین، فیذکر الله - سبحانه - في الدعاء تبرکا باسمه، والمقصود دعاء المتوسل به؛ لأنه الذي تقع الأمور بإمضائه في اعتقاده. فهذا شرك بالإجماع.
الثاني: أن یدعو الله بقصد أن یفوض الأمور إلی المتوسل به الآن، فینجز حاجته. وهذا أیضا في حکم الأول؛ لأن المتصرف في الأمور هو الله – تعالی -، لا شریك له في ذلك.
الثالث: أن یکون التوسل بأن یطلب الدعاء من المتوسل به؛ لکون دعائه أرجی للإجابة عند الله - تبارك وتعالی - لصلاحه وفضله. والتوسل بهذا المعنی جائز بالإجماع، ولم یثبت مثل هذا التوسل إلا بالأحیاء، فیختص جوازه بالأحیاء. وإن هذا المعنی هو المراد في حدیث أنس المعروف "أن عمر بن الخطاب - رضي الله عنه - کان إذا قحطوا، استسقی بالعباس بن عبد المطلب، فقال: "اللهم إنا کنا نتوسل إلیك بنبینا فتسقینا، وإنا نتوسل إلیك بعم نبینا فاسقنا." أخرجه البخاري في الاستسقاء.
الرابع: أن یکون التوسل بمعنی الإقسام علی الله بذات المتوسل به. وهذا أیضا غیر جائز؛ لأن القسم بالمخلوقات – کما یقول ابن تیمیة رحمه الله – لایجوز علی المخلوق، فکیف یجوز علی الخالق؟
الخامس: أن یدعوالله - سبحانه وتعالی - متوسلا بعلاقته مع عبد صالح یرجی کونه مقربا إلی الله تعالی، وهو الذي عبر عنه بعض العلماء بدعاء الله ببرکة عبد صالح، وهذا یعم الأحیاء والأموات...
ویحسن بي أن أختم هذا البحث بکلمات جامعة نافعة لشیخ مشایخنا الإمام أشرف علي التهانوي - رحمه الله تعالی - مترجمة إلی العربیة:
قال رحمه الله تعالى في إمداد الفتاوى (372/4):
"إن التوسل بالمقبولين عند الله في الدعاء، سواء كانوا أحياء وأمواتا، جائز. وقد ثبت توسل عمر - رضي الله عنه - بالعباس - رضي الله عنه - في الاستسقاء، والتوسل برسول الله - صلى الله عليه وسلم - في قصةالضرير بعد وفاة النبي - صلى الله عليه وسلم – أيضا. فلا شبهة في الجواز. نعم، إذا ظهر في ذلك غلو في عامة الناس، ومنعوا من أجل ذلك، فالمنع في مثل ذلك صحیح أیضا. ولکن الاعتقاد بأن الله - تعالی - تجب علیه الإجابة بالتوسل، أو أن هؤلاء المقربین المتوسل بهم یرجی منهم الإعانة، أو أن أسماءهم کأسماء الله – تعالی -، فإن کل ذلك زیادة علی الشرع."

محمد مسعود الحسن صدیقی

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

25/ذو القعدة/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مسعود الحسن صدیقی ولد احمد حسن صدیقی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب