021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
"دیندار انجمن” مردان سے متعلق سوالات کے جوابات
80487ایمان وعقائداسلامی فرقوں کابیان

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درجِ ذیل مسئلہ کے بارے میں:

صدیق دیندار اور دیندار انجمن کا تعارف:

ہمارے علاقہ مردان میں ایک گروہ "دیندار انجمن" کے نام سے کام کرتا ہے۔ یہ لوگ صدیق حسین نامی کذاب مدعی نبوت کے پیروکار ہیں۔ صدیق حسین 1886ء کو بالم بیٹ ضلع گلبرگہ حیدر آباد دکن ہندوستان میں پیدا ہوا، اپنے نام کے ساتھ دیندار لکھتا تھا اور بعد میں ہندو اوتار ہونے کا دعویدار بنا تو خود کو ہندو اوتار چن بسو ایشور کہتا تھا۔  اس کی تحریر کردہ کتب پر اس کا پورا نام "صدیق حسین دیندار چن بسو ایشور" اب بھی لکھا ہوتا ہے۔ صدیق دیندار مرزا غلام احمد قادیانی ملعون کے بیٹے بشیر الدین محمود کا مرید تھا اور مرزا محمد علی لاہوری مرزائی سے قادیانی تفسیر پڑھی تھی۔ صدیق دیندار نے بہت سے دعوے (مظہر خدا،بروز محمد ،بعثت ثانی،یوسف موعود،مثیل موسی،آخرین کا سردار،امام الجہادوغیرہ)کیے ہیں جو اس کی اپنی کتب میں موجود ہیں۔ صدیق دیندار نے 1924ء میں "دیندار انجمن" کی بنیاد رکھی اور بعد میں"تحریک حزب اللہ" کے نام سے ایک اور تنظیم قائم کی۔ حیدر آباد دکن میں صدیق دیندار نے "سرور عالم" کے نام سے اپنا ایک الگ مرکز قائم کیا۔ اس سے پہلے صدیق دیندار قادیانی مبلغ تھا، لیکن جب قادیانیوں کے درمیان قادیانی خلافت پر اختلاف پیدا ہوا تو صدیق دیندار نے دعویٰ کیا کہ میں یوسف موعود ہوں، جس کی پیشین گوئی مرزا غلام احمد قادیانی نے کی ہے، اپنے بارے میں غلام احمدقادیانی کی من گھڑت پیشین گوئیاں پیش کرتا تھا، بعض قادیانیوں نے اس کا یہ دعویٰ رد کیا، جس کی وجہ سے صدیق دیندار نے اپنی الگ تنظیم دیندار انجمن بنائی۔

صدیق دیندار اور "دیندارانجمن"کے کفریہ عقائد کی بناء پر پاک وہند کے مقتدر مفتیانِ کرام اور دُور الافتاء نے صدیق دیندار اور اس کے پیروکاروں اور معتقدین پر کفر کا فتویٰ صادر کیا ہے۔ حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ نے "بھیڑ کی صورت میں بھیڑیا" کے نام سے ان پر مستقل رسالہ لکھا ہے جو احسن الفتاوی میں موجود ہے۔ "آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد دوم صفحہ 122 سے 125 " تک حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ نے ان کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے اور انہیں ان کے باطل عقائد کی وجہ سے کافر، مرتد اور قادیانیت کی ایک شاخ قرار دیا ہے۔ "فتاوی ختمِ نبوت" مرتبہ: مولانا سعید احمد جلال پوری رحمہ اللہ، جلد اول صفحہ نمبر 348 اور 382 پر "آپ کے مسائل اور ان کا حل" کے محولہ بالا سوالات اور جوابات بعینہ نقل کیے گئے ہیں اور انہیں ان کے باطل عقائد کی وجہ سے کافر و مرتد قرار دیا گیا ہے۔ جامعہ دار العلوم کراچی سے جاری شدہ فتوی نمبر:41 الف/66 اور فتوی نمبر: 776/13 میں بھی صدیق دیندار اور اس کی تحریک کو اپنے کفریہ عقائد اور دعوؤں کی وجہ سے کافر، زندیق اور مرتد قرار دیا ہے اور ان سے نکاح حرام قرار دیا ہے۔

صدیق دیندار کا بیٹا اور اس کےقائم مقام ضیاء الحسن:

صدیق دیندار نے 1948ء میں اپنے بیٹے ضیاء الحسن کو اپنا نائب اور قائم مقام بنا کر پاکستان بھیجا، ضیاء الحسن نے پاکستان میں صوبہ خیبرپختونخواہ کے مختلف علاقوں میں رہائش اختیار کی اور اپنے عقیدہ و مشن پر کام کرتا رہا۔ آخر کار "کاروان روڈ ضلع مردان خیبرپختونخواہ" میں مستقل رہائش پذیر ہوا۔ 

2001ء میں ڈی سی آفس مردان میں ہونے والا معاہدہ:

1996ء میں جب ضلع مردان کے مسلمانوں کو ان کے عقائد کے متعلق علم ہوا تو تمام مسلمانوں نے مل کر ان کے خلاف آواز اٹھائی۔ 2000ء میں علمائے کرام کی طرف سے ان لوگوں کو ایک خط بھیجا گیا ،جس میں صدیق دیندار اور دیندار انجمن کے کفریہ عقائد کو ان کے سامنے رکھ کر ان سے اس بارے میں رائے اور وضاحت طلب کی۔ بالآخر مئی 2001ء  میں ان لوگوں نے ڈی  سی دفتر مردان میں تمام مکاتبِ فکر کے سرکردہ علماء کے سامنے تحریری طور پر عقیدہ ختم نبوت پر ایمان کا اعلان کرتے ہوئے صدیق دیندار کے عقائد سے مکمل براءت کا اعلان کیا۔ علمائے کرام کی طرف سے بھیجے جانے والے خط اور اس معاہدے کی کاپی استفتاء کے ساتھ منسلک ہے۔  

2001ء میں ہونے والے معاہدہ کی خلاف ورزی اور صدیق دیندار کے مشن کو جاری رکھنا:

 تمام مسلمانوں نے ان کے اس اقرار نامہ پر اعتماد کرکے ان کو مسلمان سمجھا، لیکن بعد میں واضح ہوا کہ در حقیقت ان لوگوں نے دجل و تلبیس سے کام لے کر مسلمانوں کو دھوکہ دیا تھا، چنانچہ 2001ء کے معاہدے کے بعد بھی یہ لوگ صدیق دیندار کو اپنا پیشوا مانتے ہیں، جس کے واضح شواہد ان کی تقریروں اور تحریروں میں موجود ہیں، چنانچہ:

  1. یہ لوگ اب بھی  ضیاء الحسن کو صدیق دیندار کا نائب اور قائم مقام کہتے اور لکھتے ہیں، حالانکہ صدیق دیندار کے کافر ہونے پر دوسرے دلائل اورشواہد کے علاوہ ایک واضح ثبوت یہ ہے کہ 2001ء میں صدیق دیندار  کے خاندان نے خود تسلیم کیا تھا کہ صدیق دیندار کے عقائد کفریہ ہیں ۔
  2. 2008ء میں ضیاء الحسن کے مرنے کے بعد اس کے قبر کے کتبہ پر بھی "قائم مقام امام الجہاد" لکھا ہے، یعنی فخریہ طور پر ضیاء الحسن کو صدیق دیندار کا قائم مقام لکھا ہے۔
  3. 2009ء میں ضیاء الحسن کے ایک بیٹے خالد حسین نے اپنے والد کی سوانح پر "اظہارِ حق" کے نام سے کتاب لکھی جس میں کھل کر ضیاء الحسن کو صدیق دیندار کا نائب اور قائم مقام قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ صدیق دیندار نے خدائی ارادہ کی تکمیل کے لیے ضیاء الحسن کو اپنا نائب بنایا۔
  4. 2009ء میں شائع ہونے والی کتاب "اظہارِ حق" کے صفحہ 230 پر صدیق حسین دیندار کی موت کا تذکرہ کرتے ہوئے واضح طور پر اس کی تحریک اور مقاصد کے لیے سرگرم ہونے کا اعتراف کیا ہے، عبارت ملاحظہ فرمائیں:

"بعد ازاں 1952ء میں بانی تحریک سید صدیق حسین دیندار انتقال کرگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ آپ کے انتقال کی خبر ریڈیو اور بی بی سی سے نشر ہوئی، جب سے اب تک تحریک اپنے مقصد کے حصول کے لیے مکمل طور پر سرگرم ہے۔" (اظہارِ حق، صفحہ:230)

  1. "اظہارِ حق" میں دوسری جگہ صدیق دیندار کی موت کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے:

"بانئ تحریک نے 7 رجب المرجب 1371ھ بمطابق 1952ء 4 اپریل شب ہفتہ رات 10:30 کو دل میں درد کا اظہار فرمایا، زبان مبارک پر اللہ ہو جاری تھا اور اللہ سے واصل ہوگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ آپ کا مزارِ اقدس حیدر آباد دکن میں ہے، جہاں ہر سال 7، 8، 9 رجب کو سالانہ عرس مبارک باقاعدگی سے منعقد ہوتا ہے، جس میں تین روزہ بین الاقوامی مذہبی کانفرنس منعقد ہوتی ہے، اس میں مختلف مذاہب کے پیشواہان کو مدعو کیا جاتا ہے اور مبلغین اسلام اسلام کی حقانیت پیش کرتے ہیں۔"

"اظہارِ حق" ہی میں لکھا ہے کہ ضیاء الحسن نے اپنے انتقال سے پہلے گائے ذبح کی، اپنے سات بیٹوں کو اپنا نائب مقرر کیا ، ان سے عام بیعت سے مختلف طریقے سے بیعت لی اور کہا کہ آج میں اپنی پوری روحانیت اپنے ساتوں بیٹوں میں برابر تقسیم کر رہا ہوں، ساتوں کا جو متفقہ فیصلہ ہوگا وہ میرا فیصلہ ہوگا۔ ان سات بیٹوں کو یہ لوگ "سبع نائبین" کہتے  اور لکھتے ہیں، ان کے نام یہ ہیں:  (1) فیاض الحسن (خلیل باچا) (2) ریاض الحسن (جاوید باچا) (3) محمود الحسن (آصف باچا) (4) زاہد الحسن (زاہد باچا) (5) خالد حسین (خالد باچا) (6) نیاز الحسن (عابد باچا) (7) شبیہ الحسن (عادل باچا)۔  

"اظہارِ حق(صفحہ:240-238) میں ضیاء الحسن کا اپنے ساتوں بیٹوں کو اپنا جانشین بنانے کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

 "یہ روحانی تحریک ہے، ہر کام منجانب اللہ ہے، ان فیصلوں میں انسانی دماغوں کا دخل نہیں، اور تحریک حزب اللہ و دیندار انجمن کو احسن طریقے سے چلانے کے لیے آپ نے ایک مجلس سبع نائبین بنائی، یہ مرکزی مجلسِ شوریٰ سے اعلی رہے گی اور مرکزی مجلسِ شوریٰ ان کے فیصلوں کو نافذ کرے گی، آپ نے مجلس سبع نائبین سے عہد لیا کہ وہ مذکورہ خدائی ارادہ کی تکمیل کے لیے اپنا تن من دھن قربان کریں گے اور دعا دی کہ اللہ تعالیٰ تم تمام سے یہ کام پایۂ تکمیل تک پہنچائے۔ آمین۔ الحمد للہ سات فرزندوں پر مشتمل سبع نائبین قائم مقام اپنے فرائض سے آگاہ ہوکر اپنے مرشدی و مولائی قبلہ کے نقش قدم پر پوری جان فشانی کے ساتھ گامزن ہیں اور تحریک کو متحد رکھے ہوئے ہیں۔"

مذکورہ بالا عبارت میں اور اس کے علاوہ "اظہارِ حق" میں اپنے دادا صدیق دیندار اور والد ضیاء الحسن کے مشن کو آگے لے جانے کے عزم کا بار بار اظہار کیا گیا ہے۔ 

یہ لوگ اب بھی صدیق دیندار کی قائم کردہ تنظیموں کے زیر اہتمام پروگرامات کرتے ہیں۔

"اظہارِ حق" پر ان کی ویب سائٹ کا ایڈریس (www.ibnedeendar.com) لکھا ہوا ہے۔

ہندوستان میں صدیق دیندار کے عرس میں ضیاء الحسن کی شرکت کی ایک ویڈیو ان کے فیس بک پیجز اور یوٹیوب چینلز سے 2001ء کے بعد شئیر ہوئی ہے۔

اس جماعت کے مختلف لوگ سوشل میڈیا پر اپنے پروفائل اور کور فوٹو میں صدیق دیندار کی تصویر بطورِ پیشوا لگاتے ہیں اور اسے اپنا راہنما مانتے ہیں۔ 

مذکورہ کتاب "اظہارِ حق" کے متعلقہ صفحات اس استفتاء کے ساتھ منسلک ہیں۔

  یہ لوگ تحریک حزب اللہ، جمعیت حزب اللہ، دیندار انجمن اور خلافتِ مبشرہ کونسل جیسے مختلف ناموں سے کام کرتے ہیں،  اور  اتحاد امت، جہاد، غزوۃ الہند، استحکام امن کانفرنس اور تمنائے حسین جیسے عنوانات پر پروگرامات کرکے خود کو مسلمان ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی مختلف پیجز اور اکاؤنٹس کے ذریعے اپنی تنظیمی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ چونکہ یہ لوگ قادیانیوں کی طرح مشہور نہیں، اس لیے کئی سادہ لوح مسلمان بھی دھوکےمیں آکر ان کے پروگراموں میں شامل ہوتے ہیں اور انہیں مذہبی شخصیات کے طور پر دیکھتے ہیں۔  سوات، بحرین، مدین، باجوڑ، حسن ابدال، سرگودھا، فیصل آباد، کراچی اور دیگر شہروں میں بھی یہ لوگ پروگرام کرتے ہیں۔ اپنا تعارف باچاگان اور سادات کے نام سے کرتے ہیں اور دم درود اور عملیات کے ذریعے سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرتے ہیں۔

اب جب دوبارہ ان کے کفریہ عقائد، سرگرمیاں اور صدیق دیندار کے معتقد ہونے کی واضح معلومات مردان کے عوام اور خواص کے سامنے آئیں تو ہم نے ان سے وضاحت طلب کرنے کی کوشش کی، جواب میں ان لوگوں نے کہا کہ ہم کسی بھی مولوی کے ساتھ نہیں بیٹھتے، ہمیں مولویوں سے سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب ہم نے ان کے سامنے2001ء کا معاہدہ پیش کیا کہ اس میں تم لوگوں نے خود صدیق دیندار کے کفر پر دستخط کیےہیں اور اب اس کو دوبارہ روحانی پیشوا کے طور پر پیش کرتے ہو تو ان کا جواب یہ تھا کہ ہم صدیق دیندار کی کفریہ عبارات و عقائد کا اعتراف کرتے ہیں اور ان سے براءت کرتے ہیں، لیکن صدیق دیندار کو کافر نہیں کہہ سکتے ۔ اظہارِ حق کی منقولہ بالا صریح عبارات کی روشنی میں ان کی یہ بات بھی دھوکہ دہی اور دجل و تلبیس ہے۔    

دیندار انجمن سے متعلق مذکورہ مختصر معلومات جو میں نے آپ کے سامنے رکھی ہیں، یہ ان کی اپنی اصل کتب اور ویڈیوز کے مطابق ہیں، ان کی اصل کتب اور ویڈیوز ہمارے پاس بطور ثبوت موجود ہیں۔ اس تفصیل کی روشنی میں سوالات درج ذیل ہیں:

(1)  صدیق حسین دیندار کے بارے میں کیا حکم ہے؟ وہ اپنے کفریہ عقائد اور جھوٹے دعوؤں کی وجہ سے کافر ہے یا نہیں؟

(2)  اگر صدیق دیندار اپنے جھوٹے دعوؤں کی وجہ سے کافر ہے تو اس کو نبی، ولی ،یا مسلمان کہنے والے کا حکم کیاہے؟ اس کو مسلمان یا روحانی پیشوا ماننے والا مسلمان ہوسکتا ہے؟

 (3) جھوٹے مدعی نبوت صدیق دیندار کو اپنا پیر و مرشد کہنا یا خود کو اس کا خلیفہ ، نائب اور قائم مقام کہنے والے کے متعلق شریعت کا حکم کیا ہے؟

(4) جھوٹے مدعی نبوت صدیق دیندار کی قائم کردہ تنظیموں کے زیر اہتمام پروگراموں میں شرکت کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟

(5) دیندار انجمن کے عقائد سے آگاہ ہونے کےباوجود ان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والوں کے متعلق اسلامی شریعت کا حکم کیا ہے؟

(6) 2001ء میں مسلمانوں کے ساتھ ڈی سی آفس مردان میں معاہدہ ہونے کے بعد ان لوگوں کا جھوٹے مدعی نبوت صدیق دیندار کے مشن کو جاری رکھنا کیسا ہے؟ کیا یہ لوگ مسلمان ہیں؟ اگر ان لوگوں میں سے کوئی مرجائے تو کیا اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا جائز ہے؟

(7)  اگر یہ لوگ یا ان میں سے کوئی شخص ایمان لانا چاہے تو اس کا طریقۂ کار کیا ہوگا؟ کن کن چیزوں پر ایمان لانے کی صراحت کرنا ہوگی اور کن کن چیزوں سے براءت کا اظہار کرنا ہوگا؟شرعی راہنمائی فرما کر ممنون فرمائیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال کے جوابات سے پہلے ایمان اور کفر سےمتعلق چند تمہیدی باتیں جاننا ضروری ہیں:

  1. قرآن یا احادیثِ متواترہ (خواہ ان احادیث کو تواترِ لفظی حاصل ہو یا معنوی) سے ثابت شدہ کسی بھی امرِ قطعی کا انکار کفر ہے، خواہ اس کا تعلق ضروریاتِ دین سے ہو ،ضروریاتِ دین کا مطلب یہ ہے کہ دین اسلام سے متعلق وہ باتیں جو عوام وخواص میں درجہ شہرت تک پہنچی ہوں اور وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعی طور پر ثابت ہوں، جیسے مسئلہ ختمِ نبوت، نزولِ حضرت عیسی علیہ السلام، قیامت کا واقع ہونا، اعمال کا میزان عمل میں وزن کیا جانا، نامہٴ اعمال کا دائیں یا بائیں ہاتھ میں ملنا، وغیرہ۔ یا ان کا تعلق ضروریاتِ دین سے نہ ہو، جیسے حضرت موسی علیہ السلام کی قوم پر طور پہاڑ کا بلند کرنا، موسی علیہ السلام کے عصا مارنے پر پتھر سے بارہ چشمے جاری ہونا اورقارون کے پاس اتنےخزانوں کا ہونا کہ جن کی چابیاں ایک جماعت سے لیے اٹھانا مشکل تھا وغیرہ۔ ان میں سے کسی ایک چیز کا انکار بھی کفر ہے، کیونکہ  ان سب امور کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے اور کتاب اللہ اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ تمام امور کو دل سے ماننے اورتسلیم کرنے کا نام ایمان ہے، جیسا کہ اہل السنہ والجماعة کی عقائد کی کتب میں تصریح ہے۔البتہ اگر کسی امر کے قطعی ہونے کا آدمی کو علم نہ ہو اور وہ جہالت کی وجہ سے انکار کرے تو پہلے اس کو سمجھا یاجائے گا کہ یہ امر قطعی ہے، جس کے انکار سے کفر لازم آتا ہے، اگر پھر بھی وہ انکار کرے تو اس پر کفر کا حکم لگے گا، ورنہ نہیں۔

اگرچہ بعض کتبِ عقائد میں کفر کے ارتکاب کے لیےضروریاتِ دین کے انکار  کی قید لگی ہوئی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کفر کے لیےضروریاتِ دین میں سے کسی چیز کا انکار ضروری ہے، لیکن راجح قول یہ ہے کہ کفر کے صدور کے لیے  صرف قطعی الثبوت ہونا کافی ہے، جیسا علامہ ابن الہمام، علامہ شامی اور علامہ کشمیری رحمہم اللہ نے تصریح کی ہے۔

العقيدة الطحاوية مع الشرح (ص: 108) مكتبة البشرى:

ونسمي أهل قبلتنا مسلمين مؤمنين، ما داموا بما جاء به النبي - صلى الله عليه وسلم - معترفين، وله بكل ما قاله وأخبر مصدقين.

المسايرة في علم الكلام للشيخ ابن الهمام(ص:183) المكتبة الملكية، بمصر:

 وأماما ثبت قطعا ولم يبلغ حد الضرورة كاستحقاق بنت الابن السدس مع الابن بإجماع المسلمين،فظاهر كلام الحنفية الإكفار بجحده؛ لأنهم لم يشترطوا سوى القطع في الثبوت، ويجب حمله على ماإذا علم المنكر ثبوته قطعا ؛ لأن مناط التكفير وهو التكذيب.

إكفار الملحدين في ضروريات الدين (ص: 49) دار الفكر-بيروت:

وظاهر كلامه: تخصيص الكفر بجحد الضروري فقط، مع أن الشرط عندنا ثبوته على وجه القطع، وإن لم يكن ضروريا، بل قد يكون بما يكون استخفافا من قول أو فعل كما مر، ولذا ذكر في "المسايرة" أن ما ينفى الاستسلام، أو يوجب التكذيب فهو كفر، فما ينفى الاستسلام كل ما قدمناه عن الحنيفة، أي مما يدل على الاستخفاف، وما ذكر قبله من قتل نبي إذا الاستخفاف فيه أظهر، وما يوجب التكذيب جحد كل ما ثبت عن النبي - صلى الله عليه وسلم - ادعاؤه ضرورة، وأما ما لم يبلغ حد الضرورة كاستحقاق بنت الإبن السدس مع البنت بإجماع المسلمين، فظاهر كلام الحنفية إلا كفار بجحده، فإنهم لم يشترطوا ويجب حمله على ما إذا علم المنكر ثبوته قطعا.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (4/ 223) دار الفكر-بيروت:

وظاهر كلامه تخصيص الكفر بجحد الضروري فقط، مع أن الشرط عندنا ثبوته على وجه القطع وإن لم يكن ضروريا، بل قد يكون استخفافا من قول أو فعل كما مر، ولذا ذكر في المسايرة أن ما ينفي الاستسلام أو يوجب التكذيب، فهو كفر فما ينفي الاستسلام كل ما قدمناه عن الحنفية أي مما يدل على الاستخفاف، وما ذكر قبله من قتل نبي إذ الاستخفاف فيه أظهر وما يوجب التكذيب جحد كل ما ثبت عن النبي - صلى الله عليه وسلم - ادعاؤه ضرورة، وأما ما لم يبلغ حد الضرورة كاستحقاق بنت الابن السدس مع البنت بإجماع المسلمين، فظاهر كلام الحنفية الإكفار بجحده فإنهم لم يشرطوا سوى القطع في الثبوت ويجب حمله على ما إذ علم المنكر ثبوته قطعا لأن مناط التكفير، وهو التكذيب أو الاستخفاف عند ذلك يكون أما إذا لم يعلم فلا إلا أن يذكر له أهل العلم ذلك فيلج اهـ

  1. ایمان میں داخل ہونے کے لیے تمام امورِ دین اور ان سب چیزوں  کی تصدیق کرنا ضروری ہےجو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعیت کے ساتھ ثابت ہوں، لیکن ایمان سے خارج ہونے کے لیے کسی ایک امر ِقطعی کا انکار بھی کافی ہے، سب کی تکذیب ضروری نہیں، چنانچہ مسیلمہ کذاب، اسود عنسی اور دیگر مدعیانِ نبوت کو امت نے صرف مسئلہ ختم نبوت کے انکار کی وجہ سے متفقہ طور پر دائرہٴ اسلام سے خارج اور زندیق قرار دیا۔

الفصل في الملل والأهواء والنحل لأبي محمد علي بن أحمد ابن حزم الظاهري(3/ 142) مكتبة الخانجي، القاهرة:

وصح الإجماع على أن كل من جحد شيئا صح عندنا بالإجماع أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أتى به فقد كفر وصح بالنص أن كل من استهزأ بالله تعالى أو بملك من الملائكة أو بنبي من الأنبياء عليهم السلام أو بآية من القرآن أو بفريضة من فرائض الدين فهي كلها آيات الله تعالى بعد بلوغ الحجة إليه فهو كافر ومن قال بنبي بعد النبي عليه الصلاة والسلام أو جحد شيئا صح عنده بأن النبي صلى الله عليه وسلم قاله فهو كافر.

     إكفار الملحدين في ضروريات الدين (ص: 17) المجلس العلمي،  باكستان:

أهل القبلة في إصطلاح المتكلمين من يصدق بضروريات الدين أي الأمور التي علم في الشرع واشتهر، فمن أنكر شيئاً من الضروريات كحدوث العالم وحشر الأجساد، وعلم الله سبحانه بالجزيئات، وفرضية الصلاة والصوم لم يكن من أهل القبلة، ولو كان مجاهداً بالطاعات، وكذلك من باشر شيئاً من ٲمارات التكذيب كسجود الصنم والإهانة بأمر شرعي والاستهزاء عليه، فليس من أهل القبلة، ومعنى: "عدم تكفير أهل القبلة أن لا يكفر بارتكاب المعاصي، ولا بانكار الأمور الخفية غير المشهورة. هذا ما حققه المحققون فاحفظه.

  1. قرآن وسنت کی وہی تشریح معتبر ہے، جس کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، امت کے جمہور مفسرین، محدثین اور فقہائے کرام رحمہم اللہ نے معتبر قرار دیا ہے، اس مفہوم سے ہٹ کر کسی بھی آیت یا حدیث کی تشریح ناقابلِ قبول ہے، لہذا ایسی تشریح اگر ضروریاتِ دین یا شریعت کے کسی قطعی امر کے خلاف ہو تو ایسی تشریح پیش کرنے والا شخص بھی دائرہ اسلام سے خارج ہو گا، اس کی تاویلِ باطل کو کالعدم شمار کیا جائے گا اور اس کی یہ تاویل اس کے کافر ہونے سے مانع نہیں ہو گی۔لہذا کسی شخص کا ختمِ نبوت یا نزولِ مسیح علیہ السلام سے متعلقہ آیات میں تاویل کر کے کسی قسم کی نبوت کو جاری ماننا یا حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات و نزول کا انکار کرنا بلاشبہ کفر ہے۔

 البتہ قرآن وحدیث کی ایسی تشریح اور تاویل جو امت کے اجماعی موقف کے خلاف نہ ہو اور اس کی وجہ سے کسی قطعی حکم کا انکار لازم نہ آتا ہو تو وہ جائز ہے، چنانچہ مفسرین کی تفسیری آراء اور محدثین کرام کی تشریحات اسی پر محمول ہیں۔

السنن الكبرى للبيهقي (10/ 354) دار الكتب العلمية، بيروت:

عن إبراهيم بن عبد الرحمن العذري , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يرث هذا العلم من كل خلف عدوله , ينفون عنه تأويل الجاهلين , وانتحال المبطلين , وتحريف الغالين ".

شفاء العليل في مسائل القضاء والقدر والحكمة والتعليل (ص: 82) لشمس الدين محمد بن  أبي بكر ابن قيم الجوزية (المتوفى: 751هـ) دار المعرفة، بيروت، لبنان:

والتأويل الباطل يتضمن تعطيل ما جاء به الرسول والكذب على المتكلم أنه أراد ذلك المعنى فتتضمن إبطال الحق وتحقيق الباطل ونسبة المتكلم إلى ما لا يليق به من التلبيس والألغاز مع القول عليه بلا علم أنه أراد هذا المعنى فالمتأول عليه أن يبين صلاحية اللفظ للمعنى الذي ذكره أولا واستعمال المتكلم له في ذلك المعنى في أكثر المواضع حتى إذا استعمله فيما يحتمل غيره حمل على ما عهد منه استعماله فيه وعليه أن يقيم دليلا سالما عن المعارض على الموجب لصرف اللفظ عن ظاهره وحقيقته إلى مجازه واستعارته وإلا كان ذلك مجرد دعوى منه فلا تقبل.

            إكفار الملحدين في ضروريات الدين (ص: 128) المجلس العلمي، باكستان:

التصرف في ضروريات الدين، والتأویل فيها، وتحويلها إلى غير ما كانت عليه، وإخراجها عن صورة ما تواترت عليه كفر، فإن ما تواتر لفظاً أو معنى، وكان مكشوف المراد، فقد تواتر مراده، فتأويله رد للشريعه القطعية، وهو كفر بواح، وإن لم يكذب صاحب الشرع.

مذکورہ بالا تمہید کے بعد بالترتیب سوالات کے جوابات ملاحظہ فرمائیں:

  1. سوال میں ذکر کیے گئے شخص صدیق دیندارنے بہت سے دعوے کیے ہیں، جن میں مظہر ِخدا،بروزِ محمد ، یوسفِ موعود اورمثیلِ موسی ہونا قابلِ ذکر ہیں، اس نے یہ بھی کہا کہ اس کی خانقاہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثتِ ثانیہ کا ظہور ہوا ہے۔ یہ سب دعاوی اس کی کتاب مہر نبوت کے صفحہ نمبر23تا42 پر مذکور ہیں، اس نے یہ بھی دعوی کیا کہ ایک کامل متبع فنا فی الرسول کا مقام سوا لاکھ نبیوں، اوتاروں کا جامع ہوتا ہے، ان دعاوی کی تفصیل اور ان پر رد احسن الفتاوی کی جلدنمبر1 میں موجود رسالہ  كےصفحہ:215پربعنوان"بھيڑ كی صورت ميں بھيڑيا" ميں مذكور ہے،  ان دعاوی میں سے ہر دعوی کفریہ ہے، یعنی اگر کوئی شخص ان میں سے کسی ایک چیز کا بھی دعوی کرے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا تو جس شخص نے اتنے دعو ے کیے ہوں وہ دائرہٴ اسلام سے بدرجہ اولیٰ خارج ہو جائے گا۔

نیزصدیق دیندار نےہندوؤں اور سکھوں کی کتابوں کا بھی مطالعہ کیا،  ہندوؤں اور سکھوں کے دیوتاؤں کو بھی مانتا تھا، اسی لیے اپنے نام کے ساتھ "چن بسویشور"(ہندوؤں کا اوتار) کا لقب لگایا تھا، اس نےمرزا کے بیٹے بشیر الدین محمود کے ہاتھ پر بیعت کی اور محمد علی لاہوری سے قرآن کریم کی تفسیر پڑھی، استفادہ کی غرض سے مرزاقادیانی کی کتابوں کا مطالعہ بھی کیا، چنانچہ اس نے اپنی کتاب مہر نبوت کے صفحہ25 پر لکھا ہے:

"اس نے مرزاقادیانی کی کتابوں کے دس ہزار صفحات کا مطالعہ کیا، جن میں سے تین سو جگہوں پر مسئلہ نبوت کو حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے، پورا پورا واقف ہو گیا اس طرح اس فقیر پر اسرارِ نبوت کھلنے کا یہ پہلا سبب ہے۔"

اسی طرح اپنی کتاب "خادم خاتم النبیین" کے صفحہ 58 پر لکھا ہے:

"حضرت مرزا صاحب کی بشارت میں جتنی صفتیں یوسف موعود کی آئی ہوئی ہیں وہ کل کمال درجہ پر مجھ پر صادق آتی ہیں"

اس سے معلوم ہوا کہ یہ شخص مرزا قادیانی کو حق پر خیال کرتے ہوئے اس کی جھوٹی پیشگوئیوں کو درست سمجھتاتھا، انہیں پیشگوئیوں کی بنیاد پر اس نے اپنے بارے میں یوسفَ موعود ہونے کا دعوی کیا، لہذا سوال میں مذکور شخص صدیق دیندار اپنے دعووں کی روشنی میں دائرہ اسلام سے خارج، کافر اور زندیق ہے، اس کے ماننے والے بھی کافر اور زندیق ہیں، ان کے ساتھ خریدوفروخت اور نکاح وغیرہ کے معاملات کرنا جائز نہیں ہے، نہ ان کا نمازِ جنازہ پڑھا جائے گا اور نہ ہی ان کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔

  1. جوشخص اپنے غلط عقائد اور نظریات کی وجہ سے دائرہٴ اسلام سے خارج ہو اور اس کے ان غلط عقائداورنظریات کا دوسرے مسلمانوں کو بھی علم ہوتو ان پر بھی لازم ہے کہ وہ بھی ایسے شخص کو کافر اور زندیق سمجھیں۔ جومسلمان اس کے غلط عقائد کا علم ہونے کے باوجوداس کو کافر نہ سمجھےتو وہ  بھی  دائرہٴ اسلام سے خارج ہو جائے گا، جس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا غلط عقائد ونظریات کے حامل شخص کو مسلمان سمجھنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ان عقائد کو مخالفِ اسلام نہیں سمجھتا، بلکہ اسلام میں ان عقائد کو جائز سمجھتا ہے، نیز کفریہ عقائدکے حامل شخص صدیق دیندار کو نبی، امام اور پیشوا سمجھنا اس بات کی علامت ہے کہ  اس کو ماننےوالا بھی انہی عقائد کا حامل ہے جن کا صدیق دیندار حامل تھا، جبکہ کسی بھی ایسے عقیدے کو اسلام میں داخل سمجھنا جس کا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہونا قطعیت سے ثابت ہو،  اسلام کی قطعی تعلیمات کا انکار ہے، جس سے آدمی دائرہ اسلام سے خارج، مرتد اور کافر ہو جاتا ہے۔

 لہذا ایسےلوگ جوصدیق دیندار کو نبی، ولی یا مسلمان سمجھتے ہیں، وہ بھی  اس کے حکم میں ہو کر کافر، ملحد اور زندیق کہلائیں گے اور ان کے ساتھ بھی خریدوفروخت، نکاح اور دیگر لین دین کرنا ناجائز اور گناہ ہو گا، ان پر بھی نمازِ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی اور نہ ہی ان کو  مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔

الشفا بتعريف حقوق المصطفى، وحاشية الشمني (2/ 281) أبو الفضل القاضي عياض بن موسى (المتوفى: 544هـ) دار الفكرللطباعة والنشر:

وقائل هذا كله كافر بالإجماع على كفر من لم يكفّر أحدا من النصارى واليهود وكل من فارق دين المسلمين أو وقف في تكفير هم أوشك قال القاضي أبو بكر لأن التوقيف والإجماع اتفقا على كفرهم فمن وقف في ذلك فقد كذب النص والتوقيف أو شك فيه والتكذيب أو الشك فيه لا يقع إلا من كافر.

الشفا بتعريف حقوق المصطفى، وحاشية الشمني (2/ 286) أبو الفضل القاضي عياض بن موسى (المتوفى: 544هـ) دار الفكرللطباعة والنشر:

نكفر من لم يكفر من دان بغير ملة المسلمين من الملل أو وقف فيهم أو شك أو صحح مذهبهم وإن أظهر مع ذلك الإسلام واعتقده واعتقد إبطال كل مذهب سواه فهو كافر بإظهاره ما أظهر من خلاف ذلك وكذلك نقطع بتكفير كل قائل قال قولا يتوصل به إلى تضليل الأمة وتكفير جميع الصحابة كقول الكميلية من الرافضة بتكفير جميع الأمة بعد النبي صلى الله عليه وسلم إذ لم تقدم عليا وكفرت عليا إذ لم يتقدم ويطلب حقه في التقديم فهؤلاء قد كفروا من وجوه.

إكفار الملحدين في ضروريات الدين (ص: 109) المجلس العلمي – باكستان:

وأكفر منه من تنبأ كاذبا ........ وكان انتهت ما أمكنت بمكان

ومن ذبّ عنه أو تأول قوله .................یكفر قطعا ليس فيه توان

كأني بكم قد قلتموا لم كفره؟ ......... فهاكم نقولا جليت لمعان

فما قولكم فيمن حبا مثل ذلكم ..... مسيلمة الكذاب أهل هوان

  1. اس سوال کا جواب نمبر 2 کے تحت گزر چکا ہے،  وہ یہ کہ کسی شخص کا جھوٹے مدعی نبوت صدیق دیندار کو اپنا پیر و مرشد یا خود کو اس کا خلیفہ ، نائب اور قائم مقام کہنے والا بھی دائرہ اسلام سے خارج، مرتد اور زندیق ہے، کیونکہ اس کو اپنا پیشوا سمجھنا اورخودكو اس کا نائب سمجھنا اس کے جھوٹے دعوئ نبوت کی تصدیق ہے، لہذا ایسے شخص کے ساتھ بھی کسی قسم کا تعلق رکھنا، اس کی نمازِ جنازہ پڑھنا اور اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا جائز نہیں ہے۔

الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص: 159) دار الكتب العلمية، بيروت:

وإذا مات أو قتل على ردته لم يدفن في مقابر المسلمين ولا أهل ملته وإنما يلقى في حفرة كالكلب والمرتد أقبح كفرا من الكافر الأصلي.

  1. کسی بھی مسلمان کے لیےجھوٹے مدعیٴ نبوت صدیق دیندار کی قائم کردہ تنظیموں کے زیر اہتمام پروگراموں میں شرکت کرنا ہرگز جائز نہیں ہے، ان کے پرگراموں میں شرکت کرنا اپنے ایمان کو خطرے میں ڈالنے والی بات ہے، کیونکہ یہ لوگ  اپنے پروگراموں اور تقریبات میں غیر محسوس طور پر اپنی طرف لوگوں کومائل کرتے ہیں، جس کا عام آدمی کو بالکل احساس نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے عام اور سادہ لوح مسلمان ان کے عقائد ونظریات سے ناواقفیت کی وجہ سے ان کو مسلمان سمجھنے لگتے ہیں، جس کا نتیجہ بعض اوقات ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھنے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔اس لیےصدیق دیندار کی قائم کردہ تنظیموں اور ان  لوگوں کی مجالس اور پروگراموں میں شرکت کرنا بالکل جائز نہیں ہے۔بلکہ ایسے لوگوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا اور ان کا تعاقب کرنا ضروری ہے، تاکہ یہ لوگ اپنی تقریبات اور پروگراموں میں سادہ لوح مسلمانوں کو دعوت دے کر ان کو گمراہ کرنے اور ان کا ایمان چھیننے کی ناپاک جسارت نہ کریں۔

  2. دیندار انجمن کے عقائد سے آگاہ ہونے کےباوجود ان کے لیے نرم گوشہ رکھنے  کا اگر یہ مطلب ہے کہ ان کو مسلمان سمجھا جائے تو یہ بہت خطرناک بات ہے، کیونکہ ان کو مسلمان سمجھنے سے اپنا ایمان ضائع ہو جائے گا، جیسا کہ سوال نمبر(2اور3) کے جواب میں گزر چکا ہے۔ اور اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو کافر سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ معاملات کرنے میں نرم گوشہ رکھا جائے تو اس سے اگرچہ آدمی کافر نہیں ہو گا، لیکن ان کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے سے دو نقصان ہوں گے:

ایک یہ کہ ان کے ساتھ نرم گوشہ اور مسلسل معاملات  اور اختلاط کرنےسے ان کے کفر کی شدت دل میں کم ہو جائے گا، جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ غیر شعوری طور پر آدمی ان کو مسلمان سمجھنے لگے گا، ایسی صورت میں کفر کا شدید خطرہ ہے۔  

دوسرا یہ کہ جب یہ لوگ دیندار انجمن کے بارے میں نرم گوشہ رکھیں گے اور ان کے ساتھ میل جول کریں گے تو دوسرے مسلمان بھی ان کو مسلمان سمجھنے لگیں گے، جس کی وجہ سے بہت سے مسلمانوں کا ایمان ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔

 اس لیے دیندارانجمن کے ساتھ نرم گوشہ رکھنے کی قطعاً اجازت نہیں ہے، ان کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے والے شریعت کے حکم کی مخالفت اور اس کے تارک ہونےکی وجہ سے گناہ گار ہوں گے اور دیگر مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو سمجھائیں کہ دیندار انجمن کے ساتھ اپنا ہر قسم کاتعلق ختم کریں، اگر یہ لوگ سمجھانے کے باوجود بھی دیندارانجمن کے ساتھ نرم گوشہ اور تعلقات قائم رکھیں تو ایسی صورت میں ان کےاردگرد رہنے والے مسلمانوں پر لازم ہے کہ نرم گوشہ رکھنے والوں کے ساتھ بھی اپنا تعلق ختم کر لیں، تاکہ ان کی وجہ سے کسی سادہ لوح مسلمان کا ایمان خراب نہ ہو، جو کہ ایک مسلمان کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔

القرآن  الکریم[النساء: 144]:

{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَتُرِيدُونَ أَنْ تَجْعَلُوا لِلَّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا مُبِينًا}

شرح معاني الآثار (1/ 249، رقم الحديث: 1475) دار عالم الكتب:

-قد حدثنا قال: ثنا سعيد بن منصور قال: ثنا هشيم , قال: أنا ابن أبي ليلى , عن عطاء عن عبيد بن عمير قال: صليت خلف عمر رضي الله عنه صلاة الغداة فقنت فيها بعد الركوع وقال في قنوته: «اللهم إنا نستعينك ونستغفرك , ونثني عليك الخير كله ونشكرك ولا نكفرك ونخلع ونترك من يفجرك اللهم إياك نعبد ولك نصلي , ونسجد وإليك نسعى ونحفد نرجو رحمتك ونخشى عذابك إن عذابك بالكفار ملحق»

مسند أحمد ت شاكر (3/ 155) دار الحديث،القاهرة:

عن عكرمة: أن عليا أتى بقوم من هؤلاء الزنادقة، ومعهم كتب، فأمر بنار فأججت، ثم أحرقهم وكتبهم، قال عكرمة: فبلغ ذلك ابن عباس، فقال: لو كنت أنا لم أحرقهم، لنهي رسول الله-صلي الله عليه وسلم-، ولقتلتهم، لقول رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "من بدل دينه فاقتلوه"، وقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "لا تعذبوا بعذاب الله عز وجل".

  1. چونکہ یہ لوگ صدیق دیندار اور اس کے عقائد سے آگاہ ہونے کے باوجود اس کو مسلمان  اور اپنا روحانی پیشوا سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کو اس کا نائب قرار دے کر  اس کےمشن پر نہ صرف قائم، بلکہ اس کو آگے پھیلانے کے لیے بھی کوشاں ہیں اس لیے یہ سب لوگ دائرہ اسلام سے خارج اور زندیق ہیں۔جہاں تک 2001ء ميں ڈی سی آفس میں ہونے والے معاہدے کا تعلق ہے تو معاہدہ میں اگرچہ انہوں نے یہ بات لکھی ہے کہ:

"ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دعویٴ نبوت کرنے والے شخص کو کذاب، دجال، ملعون اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں، اگرچہ وہ مدعیٴ نبوت ہمارے والد صدیق دیندار چن بسویشور کیوں نہ ہوں؟"

اور آگے چل  کر یہ بھی لکھا ہے کہ:

  "ہمارے والد صدیق دیندار کی تصانيف مثلاخادم خاتم النبیین، دعوت الی اللہ اور مہر نبوت وغیرہ میں جو کفریہ کلمات موجود ہیں ہم ان کے تمام کفریہ کلمات وعقائد سے مکمل طور پر براٴت کا اعلان کرتے ہیں۔"

جس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے باپ کے غلط عقائد ونظریات کے حامل نہیں ہیں، لیکن ان کی یہ عبارت اس بات کا احتمال رکھتی ہے کہ انہوں نے صدیق دیندار کی کفریہ عبارات سے تو برات کا اظہار کیا، مگر صدیق کو کافر قرار نہیں دیا،کیونکہ معاہدہ میں صدیق دیندار کے کفر کی تصریح نہیں ہے، اسی لیے سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق  ابھی جب ان سے اس معاہدہ کے حوالے سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا:

"ہم صدیق دیندار کی کفریہ عبارات و عقائد کا اعتراف کرتے ہیں اور ان سے براءت کرتے ہیں، لیکن صدیق دیندار کو کافر نہیں کہہ سکتے"

اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے معاہدہ میں دجل اور تلبیس سے کام لیا ہے اورحقیقت میں اب بھی یہ لوگ صدیق دیندار کو اپنا پیشوا اور امام سمجھتے ہیں، چنانچہ سوال میں مذکور اور سوال کے ساتھ منسلک رسالہ "اظہارِ حق" کی عبارات میں انہوں نے جگہ جگہ صدیق دیندار کو اپنا امام اور پیشوا تسلیم کیا ہے اور اس کے بیٹے ضیاء الحسن کو قائم مقام امام الجہاد قرار دیا ہے۔جس سے معلوم ہوا کہ یہ لوگ صدیق دیندار کے عقائد کا صرف زبان سے انکار کرتے ہیں، دل سے اس کے ان عقائد کو درست سمجھتے ہیں، کیونکہ مدعی نبوت کو اپنا امام اور پیشوا ماننا اس کے عقائد کو درست ماننے اور اس کی تصدیق کرنے کی  دلیل ہے، خصوصاً جبکہ یہ لوگ اپنے آپ کو اس کا نائب قرار دے رہے ہیں، جیسا کہ ان کی عبارات میں تصریح ہے، لہذا یہ لوگ بھی دائرہ اسلام سے خارج، کافر اور زندیق ہیں، ان کے ساتھ بھی کسی قسم کا تعلق رکھنا، خریدوفروخت اور دیگر معاملات کرنا جائز نہیں، نیز ان میں سے کسی کے مرنے پر نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی اور نہ ہی ان کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔

  1. اگر یہ لوگ یا ان میں سے کوئی شخص ایمان لانا چاہے تو اس کا طریقۂ کار یہ ہے کہ پہلےیہ لوگ صدیق دیندار اور مرزاقادیانی کے تمام دعاوی کا انکار کریں اور ان سے براٴت کا اظہار کریں، نیز جھوٹے مدعی نبوت صدیق دینداراورمرزا قادیانی  پر لعنت بھیج کر ان کی تکذیب کریں ، نیز ان کو اور ان کے تمام متبعین کو کافر، ملحد اور زندیق قرار دیں، اس کے بعد درج ذیل عبارت پڑھ کر اس کی دل سے تصدیق کریں تو یہ لوگ دائرہٴ اسلام میں داخل ہو جائیں گے:

"میں بغیر کسی جبرو اکراہ  کےاپنے ہوش وحواس کی حالت میں دل سے اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے بندے اور آخری رسول اور نبی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی بھی قسم (خواہ ظلی ہو یا بروزی، تشریعی ہو یا غیر تشریعی) کا کوئی نبی اور رسول پیدا نہیں  ہوا اور نہ ہی قیامت تک پیدا ہو گا، لہذا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام کے سوا قیامت تک جو شخص بھی کسی قسم کی نبوت کا دعوی کرے وہ کافر اور زندیق ہے، البتہ حضرت عیسی علیہ السلام اپنے جسدِ عنصری کے ساتھ آسمانوں پر زندہ ہیں اور وقت مقرر پر دنیا میں تشریف لا کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے مطابق زندگی گزاریں گے۔ نیز اس کے علاوہ  میں ہر اس بات کی دل سے تصدیق کرتا ہوں جس کا ثبوت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعی طور پر ثابت ہے۔"

اس طرح زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کرنے کے بعد ان کو مسلمان سمجھنا اور ان میں کسی کے فوت ہونے کی صورت میں اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا درست ہے۔ البتہ اس طرح ایمان قبول کرنے کے بعد بھی ایک معتد بہ وقت تک عام مسلمانوں کو ان  لوگوں کی مجالس میں شرکت، ان کے ساتھ میل جول رکھنے اور ان کے ساتھ مسلمانوں جیسے تعلقات رکھنے سے اجتناب کرنا چاہیے، تا وقتیکہ یہ بات بالکل ظاہر اور قطعی طور پر واضح ہو جائے کہ ان لوگوں نے دل سے ان کفریہ عقائد سے براءت کا اعلان کیا ہے اور اب ان میں اس طرح کے عقائد کے کوئی اثرات نہیں پائے جاتے، جس کی ایک صورت یہ ہے کہ ان کے محلے کے نزدیک صحیح العقیدہ مسلمانوں کی مسجد کے امام صاحب اور ان کے ساتھ دو تین آدمی اعلانِ براءت کی تصدیق کر دیں، اس طرح واضح اعتراف اور اعلانِ براءت کے بعد ان کے ساتھ مسلمانوں جیسے معاملات کرنا  درست ہے۔

حوالہ جات
القرآن الكريم:(  الأحزاب:40):
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا .
مسند أبي داود الطيالسي (4/ 61، رقم الحديث: 2416) دار هجر، مصر:
حدثنا أبو داود قال: حدثنا ابن أبي ذئب، عن الزهري، عن سعيد، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ليوشكن أن ينزل فيكم عيسى ابن مريم عليه السلام حكما مقسطا، يقتل الخنزير ويكسر الصليب ويضع الجزية ويفيض المال حتى لا يقبله أحد» 
صحيح البخاري (9/ 93، رقم الحديث: 7284) دار طوق النجاة:
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ليث، عن عقيل، عن الزهري، أخبرني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن أبي هريرة، قال: لما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم واستخلف أبو بكر بعده، وكفر من كفر من العرب، قال عمر لأبي بكر: كيف تقاتل الناس؟ وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا: لا إله إلا الله، فمن قال: لا إله إلا الله عصم مني ماله ونفسه، إلا بحقه [ص:94] وحسابه على الله "، فقال: والله لأقاتلن من فرق بين الصلاة والزكاة، فإن الزكاة حق المال، والله لو منعوني عقالا كانوا يؤدونه إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم لقاتلتهم على منعه، فقال عمر: «فوالله ما هو إلا أن رأيت الله قد شرح صدر أبي بكر للقتال، فعرفت أنه الحق»، قال ابن بكير، وعبد الله عن الليث عناقا وهو أصح.
الملل والنحل لمحمد بن عبد الكريم الشهرستاني (المتوفى: 548هـ) (1/ 101) مؤسسة الحلبي:
قال: الإيمان هو التصديق بالجنان. وأما القول باللسان والعمل بالأركان ففروعه، فمن صدق بالقلب أي أقر بوحدانية الله تعالى، واعترف بالرسل تصديقا لهم فيما جاءوا به من عند الله تعالى بالقلب صح إيمانه حتى لو مات عليه في الحال كان مؤمنا ناجيا، ولا يخرج من الإيمان إلا بإنكار شيء من ذلك.
العقيدة الطحاوية مع الشرح (ص: 114)مكتبة البشرى:
والإيمان هو الإقرار باللسان والتصديق بالجنان وجميع ما صح عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - من الشرع والبيان كله حق.
إكفار الملحدين في ضروريات الدين (ص: 2) المجلس العلمي، باكستان:
والمراد "بالضروريات على ما اشتهر في الكتب: ما علم كونه من دين محمد - صلى الله عليه وسلم - بالضرورة، بأن تواتر عنه واستفاض، وعلمته العامة، كالوحدانية، والنبوة، وختمها بخاتم الأنبياء، وانقطاعها بعده.
 فيصل التفرقة بين الإسلام والزندقةللإمام محمد لاغزالي (ص:47):
أحدهما مقام عوام الخلق، والحق فيه الاتباع لمذهب السلف عن تغيير الظواهر رأسا، والحذر عن إبداع التصريح بتأويل لم تصريح به الصحابة، وحسم باب السؤال والزجر عن الخوض في الكلام والبحث واتبابع ماتشابه من الكتاب والسنة.
     الاقتصاد في الاعتقاد للغزالي (ص: 137) دار الكتب العلمية، بيروت:
الأمة فهمت بالإجماع من هذا اللفظ ومن قرائن أحواله أنه أفهم عدم نبي بعده أبداً وعدم رسول الله أبداً وأنه ليس فيه تأويل ولا تخصيص فمنكر هذا لا يكون إلا منكر الإجماع.
الفصل في الملل والأهواء والنحل لأبي محمد ابن حزم الظاهري(3/ 139) مكتبة الخانجي،القاهرة:
 وأما من قال أن الله عز وجل هو فلان لإنسان بعينه أو أن الله تعالى يحل في جسم من أجسام خلقه أو أن بعد محمد صلى الله عليه وسلم نبيا غير عيسى بن مريم فإنه لا يختلف اثنان في تكفيره لصحة قيام الحجة بكل هذا على كل أحد ولو أمكن أن يوجد أحد يدين بهذا لم يبلغه قط خلافه لما وجب تكفيره حتى تقوم الحجة عليه.
إكفار الملحدين في ضروريات الدين (ص: 78) المجلس العلمي، باكستان:
قال الكمال: والصحيح أن لازم المذهب ليس بمذهب، وإنه لا كفر بمجرد اللزوم غير الالتزام، وقد وقع في "المواقف" ما يقتضي تقييده بما إذا لم يعلم ذو المذهب اللزوم، وبأن اللازم كفر، فإنه قال: من يلزمه الكفر، ولا يعلم به ليس بكافر إلخ. ومفهومه أن علمه كفر لإلتزامه إياه. والله أعلم انتهى. "يواقيت" للشعراني".
وفي "الكليات": ولزوم الكفر المعلوم كفر، لأن اللزوم إذا كان بينا فهو في حكم الالتزام لا اللزوم مع عدم العلم به اهـ.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

27/ذو القعدة 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب