021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایک بیٹے کو والدہ کی طرف سے رقم کے ہبہ میں ورثا کا اختلاف
80522ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

ہماری والدہ محترمہ کی وفات 2019ء میں ہوئی۔ والدہ صاحبہ کو آخری عمر میں (وفات سے دو سال

پہلے سے) نسیان کی بیماری تھی، ایک مجلس میں کسی کو کوئی چیز ہدیہ کرتی تو دوسری مجلس/ وقت میں بھول چکی ہوتی تھی کہ یہ چیز میں فلاں کو ہدیہ کرچکی ہوں۔ جس وقت ہدیہ کرتی یا کوئی تصرف کرتی اس وقت اس تصرف کو سمجھتی تھی، لیکن بعد میں بھول جاتی تھی۔  

 والدہ صاحبہ کی جائیداد دو قسم تھی: (1) جس کا مکمل اختیار والدہ کے پاس تھا، بغیر اشتراک کے۔ (2) جس میں والدہ کے ساتھ ان کے دوسرے بہن بھائی بھی شریک تھے اور اسے فروخت کرنے کا مکمل اختیار والدہ کو نہیں تھا، البتہ اس کی آمدن جوار، چاول وغیرہ اور  کرایہ آتا تھا۔

بقول ہمارے بڑے بھائی کے والدہ صاحبہ نے پہلی قسم کی جائیداد فروخت کر کے رقم اس کو اپنے کاروبار میں بطورِ انویسٹمنٹ لگانے کے لیے دئیے تھے، اور پھر وہ رقم اسے ہدیہ کردی تھی۔ کیا اس جائیداد کی رقم بڑے بھائی کو ہدیہ کرنا جائز تھا یا نہیں؟ جبکہ ہماری والدہ کو نسیان کا مرض بھی تھا۔ کچھ رقم صدقہ بھی کرچکی تھی۔ جو رقم وہ صدقہ کرچکی ہے اور جو رقم بڑے بھائی کو دے چکی ہے، ان میں دوسرے بھائیوں اور بہنوں کا حصہ ہے یا نہیں؟ والدہ کی نسیان کی بیماری کے گواہان بھی موجود ہیں۔  

وضاحت: سائل کے بڑے بھائی سے بات ہوئی، انہوں نے بتایا کہ میری والدہ کی گیارہ جائیدادیں تھیں، ان میں سے دو انہوں نے بیچی تھیں، وہ چونکہ گھر میں ہوتی تھی تو میں ان کے وکیل کے طور پر ان کے لیے سودا کرتا تھا، چنانچہ انہوں نے وہ دو جائیدادیں بیچ دیں، اس کے کاغذات بھی بن گئے اور پیسے بھی ان کے پاس آگئے۔ وہ پیسے ان کے پاس تھے، بعد میں انہوں نے مجھے کہا کہ اس میں جو پیسے باقی ہیں وہ میں آپ کو دیتی ہوں، اس میں دوسرے بہن بھائیوں کا آپ کے ساتھ کوئی حق نہیں ہوگا، باقی جائیدادیں جب فروخت ہوں گی تو اس میں سب بہن بھائیوں کو حصہ ملے گا۔ پھر انہوں نے وہ رقم میرے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کرادی، اس مقصد کے لیے وہ خود عدالت بھی گئی تھی۔ چونکہ اس وقت ہمارا اس طرح حساب کتاب نہیں چلتا تھا، اس لیے مجھے یاد نہیں کہ وہ رقم کتنی تھی۔ میں اپنی آخرت کیوں خراب کروں۔ میں کہتا ہوں کہ اگر میرے بہن بھائی سمجھتے ہیں کہ والدہ نے مجھے یہ رقم نہیں دی تھی اور میں غلط بیانی کر رہا ہوں تو وہ مجھے بتائیں کہ وہ کتنی رقم تھی، میں ان کو واپس کرنے کے لیے تیار ہوں۔   

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کی والدہ نے مرض الموت سے پہلے اپنی کچھ رقم صدقہ کی تھی اور کچھ بڑے بیٹے کو ہدیہ کی تھی اور قبضہ بھی دیا تھا اور آپ سب ورثا اس پر متفق ہیں تو یہ پورا صدقہ اور ہدیہ دونوں درست ہوئے تھے اور اب اس رقم میں دیگر ورثا کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ جب آپ کی والدہ تصرفات کو سمجھتی تھی، صرف بعد میں بھول جایا کرتی تھی تو اس سے صدقہ اور ہدیہ کے درست ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ (ہبہ درست ہونے کے باوجود) ان کا صرف بڑے بیٹے کو رقم ہدیہ کرنا جائز تھا یا نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر انہوں نے ایسا بڑے بیٹے کے ضرورت مند ہونے یا زیادہ خدمت کرنے یا کسی اور وجۂ ترجیح کی بنیاد پر کیا تھا اور ان کی باقی جائیداد اتنی ہے کہ اس میں دوسرے بیٹوں اور بیٹیوں کو بطورِ میراث معتد بہ اور مناسب حصہ مل رہا ہے تو پھر ان کا یہ فعل جائز تھا، لیکن اگر انہوں نے بغیر کسی وجۂ ترجیح کے صرف بڑے بیٹے کو بہت زیادہ رقم دی ہو اور ان کے باقی میراث میں دوسرے بہن بھائیوں کو جو حصہ مل رہا ہو وہ بہت کم ہو تو پھر ان کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں تھا، تاہم جب انہوں نے رقم کا قبضہ بڑے بیٹے کو دیا تھا تو ہبہ بہر حال شرعا درست اور نافذ ہوگیا تھا۔

یہ حکم اس وقت ہے جب دوسرے ورثا اس ہدیہ کا اقرار کر رہے ہوں، لیکن اگر دوسرے ورثا اس ہدیہ کا انکار کر رہے ہوں یا اس سے لاعلمی کا اظہار کر رہے ہوں اور بڑے بھائی کی تصدیق نہ کرتے ہوں تو پھر بڑے بھائی کے ذمے معتبر شرعی دلیل (گواہوں یا ہدیہ کا ایسا دستاویز جس میں تغیر اور تبدیلی کا کوئی امکان نہ ہو) سے یہ بات ثابت کرنی ہوگی کہ والدہ نے رقم اسے ہدیہ کی تھی، اگر وہ یہ بات ثابت کرلے تو اس کا دعویٰ درست مانا جائے گا اور پھر اس رقم میں دوسرے ورثا کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ اور اگر بڑا بھائی کسی معتبر شرعی دلیل سے اپنا دعویٰ ثابت نہ کرسکے تو پھر دیگر ورثا کے ذمے قسم لازم ہوگی، اگر وہ ہدیہ کا انکار کر رہے ہوں تو وہ یہ قسم اٹھائیں گے کہ اللہ کی قسم ہماری والدہ نے یہ رقم ان کو ہدیہ نہیں کی، اور اگر وہ لاعلمی کا اظہار کر رہے ہوں تو پھر اس طرح قسم اٹھائیں گے کہ اللہ کی قسم ہمیں معلوم نہیں کہ ہماری والدہ نے یہ رقم ان کو ہدیہ کی ہے، اگر وہ قسم اٹھالیتے ہیں تو پھر بڑے بھائی کا دعویٰ معتبر نہیں ہوگا اور وہ رقم والدہ کے ترکہ میں شامل ہوکر ان کے تمام ورثا میں اپنے اپنے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی۔

حوالہ جات
رد المحتار (7/ 181):
قوله ( فهو على المرض ) لم يذكر ما إذا اختلفا في الصحة والمرض. وفي الأنقروي: ادعى بعض الورثة أن المورث وهبه شيئا معينا وقبضه في صحته، وقالت البقية: كان في المرض فالقول لهم، وإن أقاموا البينة فالبينة لمدعي الصحة.
المجلة (ص: 355):
مادة 1748: إذا حلف أحد على فعله فيحلف على البتات يعني يحلف على القطع بأن هذا الشيء هكذا أو ليس بكذا وإذا حلف على فعل الغير فيحلف على عدم العلم يعني يحلف على عدم علمه بذلك الشيء.
شرح المجلة للأتاسي(5/415):
ثم إنما یحلف في فعل الغیر علی العلم إذا قال المنکر: لا علم لي بذلك. وأما إذا قال لي علم بذلك فیحلف علی البتات.
المجلة (ص: 352):
مادة 1736: لايعمل بالخط والختم فقط، ولكن إذا كان سالما عن شبهة التزوير والتصنيع فيكون معمولا به، يعني يكون مدرارا للحكم، لا يحتاج إلى الثبوت بوجه آخر.
مادة 1737: البراءات السلطانية وقيود الدفاتر الخاقانية؛ لكونها أمينة من التزوير، معمول بها.
 مادة 1738: يعمل أيضا بسجلات المحاكم إذا كانت قد ضبطت سالمة عن الفساد والحيلة على الوجه الذي يذكر في باب القضاء.
مادة 1739: لايعمل بالوقفية فقط، ولكن إذا كانت مقيدة في سجل المحكمة الموثوق به والمعتمد عليه فتكون معمولا بها على ذلك الحال.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

       28/ ذو القعدۃ/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب