021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میراث کا مسئلہ(بیوہ ،تین بیٹے اور تین بیٹیوں میں میراث کی تقسیم)
80501میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے والد صاحب کا کچھ عرصہ پہلے انتقال ہوگیا ہے۔اب والد صاحب کے ورثاء میں ایک بھائی،تین بیٹے،تین بیٹیاں،ایک بیوی اور دو بہنیں ہیں جو بقید حیات ہیں۔اب ہم شریعت کے مطابق میراث تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔

لہٰذا آپ حضرات شریعت کے مطابق مذکورہ ورثاء کے حصوں کا تعین فرمائے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسؤلہ میں میت نے بوقتِ انتقال اپنی ملکیت میں جو کچھ منقولہ وغیر منقولہ چھوٹا بڑا جوساز وسامان چھوڑا ہےاور مرحوم کا  وہ قرض جو کسی کے ذمہ  واجب الاداء  ہو، يہ  سب مرحوم کا ترکہ ہے۔ اس میں سےپہلےمرحوم کا  وہ قرض  ادا کیا جائے  جس کی ادئیگی مرحوم کے ذمہ  واجب ہو۔ اس کے بعد اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو بقیہ ترکہ  میں سے ایک تہائی(1/3) کی حد  تک اس پر عمل کیا جائے۔اس کے بعد جو ترکہ باقی بچے اس کو کل 72 حصوں میں برابر تقسیم کر کے بیوی کو 9،ہر بیٹے کو 14اورہر بیٹی کو 7 حصے دیے جائیں،مذکورۃ صورت میں مرحوم کی بہنوں اور بھائی کو کچھ نہیں ملےگا،تقسیم میراث کا نقشہ ملاحظہ فرمائیں:

 

نمبرشمار

ورثاء

عددی حصہ

فیصدی حصہ

1

بیوی

9

%5.12

2

پہلا بیٹا

14

%444.19

3

دوسرا بیٹا

14

 %444.19

4

تیسرا بیٹا

14

%444.19

5

پہلی بیٹی

7

%7222.9

6

دوسری بیٹی

7

%7222.9

7

تیسری بیٹی

7

%7222.9

8

پہلی بہن

0

00%

9

 دوسری بہن

0

00%

10

بھائی

0

00%

کل

72

100%

حوالہ جات
القرآن الکریم[النساء: 12]
{وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ } {قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا وَلَدٌ فَإِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْن}۔
النساء:11
{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ}۔
تسهيل الفرائض (ص: 52)
ميراث الأخوات الشقيقات، إما بالفرض، وإما بالتعصيب بالغير، وإما بالتعصيب مع الغير.
فيرثن بالفرض بثلاثة شروط، أن لا يوجد فرع وارث، ولا ذكر من الأصول وارث، ولا معصب وهو الأخ الشقيق.
وفرض الواحدة النصف، والثنتان فأكثر الثلثان لقوله تعالى: {يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلالَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا وَلَدٌ فَإِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَك} ."النساء: من الآية176".، فإن وجد فرع وارث، وكان ذكراً، سقطت الأخوات؛ لأنه لا إرث للحواشي مع ذكر الفروع۔

محمدمصطفیٰ رضا

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

29/ذو القعدہ/1444ھ

 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مصطفیٰ رضا بن رضا خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب