80497 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
ایک شخص نے اپنے انتقال سے پہلے اولاد میں اپنی زمین شریعت کے مقرر کردہ حصوں کے مطابق تقسیم کردی اور صرف ایک گھر جسمیں اسکی تین شادی شدہ بیٹیاں اور ایک بیٹا اپنی پوری فیملی کے ساتھ رہائش پذیر ہیں اس گھر میں وراثت کی تقسیم کا کیا طریقہ کار ہوگا آیا بھائی سب بہنوں کو انکے حصے کی رقم دے کر گھر سے روانہ کردے اور خود گھر میں رہتا رہے یا گھر بیچ کر سب کو انکے حصے کے برابر رقم دے دے یا جو بھی ممکنہ صورتیں بنتی ہیں وہ بیان فرمادیں
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
چونکہ والد کی وفات کے بعد اب یہ گھر ورثہ کی مشترکہ ملکیت ہے،لہذا اس کی تقسیم کے لئے ورثہ باہمی رضامندی سے سوال میں ذکر کئے گئے طریقوں میں سے کوئی بھی طریقہ اختیار کرسکتے ہیں۔
نیز اگر اسے فروخت کرنے کی وجہ سے ورثہ کو متبادل جگہ رہائش میں مشکلات ہوں تو وہ لوگ اس گھر کو مشترکہ طور پر رہائش کے لئے زیرِ استعمال بھی رکھ سکتے ہیں،البتہ اس صورت میں پہلے پورے گھر کے کرایہ کا محتاط اندازہ لگالیا جائے،پھر جو وارث گھر کے جس حصے میں رہائش پذیر ہے،اس کے حصے کے کرایہ کا اندازہ لگایا جائے،اگر اس وارث کے رہائش پذیر حصے کا کرایہ گھر کے کل کرایہ میں اس کے میراث میں موجود شرعی حصے کے برابر بنتا ہوتو ٹھیک،اگر زیادہ ہو تو اتنی رقم وہ کرایہ کے مد میں دیگر ان ورثا کو دینے کا پابند ہوگا جن کے حصے کا کرایہ ان کے میراث میں موجود شرعی حصے سے کم بنتا ہے،جبکہ کرایہ میراث میں موجود شرعی حصے سے کم ہونے کی صورت میں یہ وارث دیگر ورثہ سے بقیہ رقم کا مطالبہ کرسکے گا،لیکن اگر ورثہ باہمی رضامندی سے ایک دوسرے سے اس کم و بیش رقم کا مطالبہ نہ کریں تو اس کی بھی گنجائش ہے۔
حوالہ جات
"درر الحكام في شرح مجلة الأحكام" (3/ 26):
"تقسم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابها بنسبة حصصهم، يعني إذا كانت حصص الشريكين متساوية أي مشتركة مناصفة فتقسم بالتساوي وإذا لم تكن متساوية بأن يكون لأحدهما الثلث وللآخر الثلثان فتقسم الحاصلات على هذه النسبة؛ لأن نفقات هذه الأموال هي بنسبة حصصهما".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
27/ذی قعدہ 1444ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق غرفی | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |