80525 | قربانی کا بیان | قربانی کے متفرق مسائل |
سوال
غریب بندے نے جس پر قربانی واجب نہیں تھی، قربانی کی نیت سے جانور خریدا، پھر وہ جانور بھاگ گیا یا مرگیا تو اس غریب کے لیے کیا حکم ہے؟ اور اگر امیر کے ساتھ ایسا ہو تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگر فقیر (جو شخص قربانی کے نصاب کا مالک نہ ہو) قربانی کی نیت سے جانور خریدے اور پھر وہ جانور مرجائے یا گم ہوجائے تو اس پر دوسرے جانور کی قربانی لازم نہیں، البتہ گم ہونے کی صورت میں اگر وہ قربانی کے دنوں سے پہلے یا قربانی کے تین دن میں مل جائے تو اس کی قربانی لازم ہوگی اور اس کے بعد ملنے کی صورت میں اس کو صدقہ کرنا لازم ہوگا۔ جبکہ امیر یعنی صاحبِ نصاب شخص کی قربانی کا جانور اگر مرجائے یا گم ہوجائے تو اس پر دوسرے جانور کی قربانی لازم ہوگی۔
حوالہ جات
الهداية (4/ 74):
ولو اشتراها سليمة ثم تعيبت بعيب مانع، إن كان غنيا فعليه غيرها، وإن كان فقيرا تجزئه هذه؛ لأن الوجوب على الغني بالشرع ابتداء لا بالشراء، فلم تتعين به، وعلى الفقير بشرائه بنية الأضحية، فتعينت، ولا يجب عليه ضمان نقصانه، كما في نصاب الزكاة.
وعن هذا الأصل قالوا: إذا ماتت المشتراة للتضحية، على الموسر مكانها أخرى، ولا شيء على الفقير. ولو ضلت أو سرقت فاشترى أخرى، ثم ظهرت الأولى في أيام النحر، على الموسر ذبح إحداهما، وعلى الفقير ذبحهما.
أیضا الدر المختار مع رد المحتار (6/326-325):
الفتاوى الهندية (5/ 296):
فإن كان أوجب على نفسه شاة بعينها بأن قال: لله علي أن أضحي بهذه الشاة سواء كان الموجب فقيرا أو غنيا، أو كان المضحي فقيرا وقد اشترى شاة بنية الأضحية، فلم يفعل حتى مضت أيام النحر، تصدق بها حية. وإن كان من لم يضح غنيا ولم يوجب على نفسه شاة بعينها تصدق بقيمة شاة اشترى أو لم يشتر، كذا في العتابية.
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
28/ ذو القعدۃ/1444ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |