021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میت کی طرف سے قربانی
80512قربانی کا بیانقربانی کے متفرق مسائل

سوال

 جو رشتہ دار فوت ہوچکے ہیں،جیسے والدین وغیرہ ،ان کی طرف سے قربانی کاکیا حکم ہے؟ان کے لیے حصہ رکھ

سکتے ہیں؟ گوشت کے بارے میں بھی بتادیں کہ کھا سکتے ہیں یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

فوت ہونے والے  کی طرف سے قربانی کرنا درست ہے۔ یہ قربانی درحقیقت جانور کے مالک یا حصہ خریدنے والے کی ہے جس کا ثواب وہ فوت ہونے والے  کو پہنچا رہا ہے۔

فوت ہونے والے نے قربانی کی وصیت نہ کی ہو،بلکہ ان کی طرف سے نفل قربانی کی جائے تو اس میں سے خود کھانا اور دوسروں کو کھلانا جائز ہے،، لیکن اگر فوت ہونے والے نے قربانی کرنے کی وصیت کی ہو تو اس میں سے خود کھانا یا مالداروں کو کھلانا جائز نہیں، بلکہ سارا گوشت غریبوں  پر صدقہ کرنا لازم ہے۔

حوالہ جات
(الھدایۃ، 1/178):
الأصل في هذا الباب أن الإنسان له أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة أو صوما أو صدقة أو غيرها عند أهل السنة والجماعة لما روي عن النبي عليه الصلاة والسلام أنه ضحى بكبشين أملحين أحدهما عن نفسه والآخر عن أمته ممن أقر بوحدانية الله تعالى وشهد له بالبلاغ جعل تضحية إحدى الشاتين لأمته."
(حاشیۃ ابن عابدین، 6/326):
"من ضحى عن الميت يصنع كما يصنع في أضحية نفسه من التصدق والأكل والأجر للميت والملك للذابح. قال الصدر: والمختار أنه إن بأمر الميت لا يأكل منها وإلا يأكل. بزازية."

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

28/ذیقعدہ1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب