021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
"اگر مسجد گیا تو مسلمان نہیں ہوں گا”کہنے کا حکم
80513قسم منت اور نذر کے احکاممتفرّق مسائل

سوال

مسجد کے منبر سے مو لوی نے جمعہ کے خطبے میں شیعہ کو سرِ عام غلیظ ترین کافر کہا، بلکہ اور نہایت غلط الفاظ کا بھی کھلم کھلا استعمال بھی کیا، جس پر ایک شخص کو شدید غصہ آیا اور اُس نےغصے میں یہ کہہ کر قسم اُٹھائی کہ ’’یہ کون ہو تا ہے کسی کے کافر اور مسلمان ہونے کا فیصلہ کرنے والا؟ آئندہ اگر میں اس مسجد میں گیا تو میں مسلمان نہیں ہوں گا‘‘، کچھ عرصہ بعد اُسے احساس ہوا کہ اس میں مسجد کی نہیں، بلکہ خطیب کی غلطی تھی جس نے ایسے الفاظ استعمال کیے، لہذا یہ مسجد جانا ترک نہیں کیا جا سکتا، بلکہ مذکورہ مو لوی کے پیچھے نماز نہیں پڑھوں گا، اور وہ شخص مسجد جا کر ب الگ سے نماز پڑھنے لگا، تو کیا اُس شخص کی قسم ٹو ٹ گئی؟ اگر ٹو ٹ گئی تو تلافی کیا ہے اور کیا مذکورہ شخص اگر شادی شدہ ہے تو کیا نکاح قائم رہے گا یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ عرف کی وجہ سے اس طرح کے الفاظ سے قسم منعقد ہوجاتی ہے،اس لئے مذکورہ صورت میں بھی ان الفاظ سے قسم منعقد ہوگئی تھی اور پھر اس شخص کے مسجد میں جانے سے قسم ٹوٹ گئی جس کا کفارہ اس کے ذمے لازم ہے،البتہ قسم ٹوٹنے سے یہ شخص دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوا،کیونکہ اس طرح کے الفاظ سے عام طور پر لوگوں کا مقصد درحقیقت کفر اختیار کرنا اور اس پر راضی ہونا نہیں ہوتا،بلکہ بطور قسم اپنی بات کی پختگی مقصود ہوتی ہے،اس لئے تجدیدِ ایمان اور تجدیدِ نکاح کی ضرورت نہیں۔

تاہم اگر کوئی شخص اس نیت سے ان الفاظ سے قسم اٹھائے کہ فلاں کام کرنے سے وہ واقعی کافر ہوجائے گا اور پھر کفر اختیار کرنے کی نیت سے وہ کام کرلے تو اس صورت میں قسم توڑنے والا شخص دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا،جس کے بعد اس کے ذمے تجدید ایمان و نکاح دونوں لازم ہوں گے۔

اس لئے جذبات میں آکر اس طرح کی قسمیں کھانے سے احتراز برتنا لازم ہے اورمذکورہ عمل پرصدق دل اور ندامت کے ساتھ توبہ واستغفار کرنا چاہیے، کیونکہ ایمان جیسی عظیم دولت کی حفاظت بہرصورت ملحوظِ نظر رہنی چاہیے۔

واضح رہے کہ قسم توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ دس مساکین کو صبح شام (دو وقت) پیٹ بھر کر کھانا کھلایا جائے یا دس مساکین میں سے ہر مسکین کوسوا دوکلو(احتیاطاً)  یاپونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت دیدی جائے، یا دس مسکینوں کو ایک ایک جوڑا کپڑوں کا دیدیا جائے،لیکن اگر قسم کھانے والا غریب ہو اور مذکورہ امور میں سے کسی کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو پھر قسم کے کفارے کی نیت سے مسلسل تین دن تک روزے رکھنے پڑیں گے۔

یہ بھی واضح رہے کہ کفر واسلام کا حکم لگانا انتہائی احتیاط کا متقاضی ہے،لہذا کسی فرقے کا نام لے کر اس کے تمام افراد کو کافر قرار دینے کا عمل خلافِ شریعت ہے،البتہ جو شخص دین کے قطعی اور بدیہی امور میں سے کسی امر کا انکار کرے تو وہ شخص دائرہ اسلام سے خارج سمجھا جائے گا،مثلا کوئی شخص قرآن میں تحریف  واقع ہونے کا قائل ہو،یا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت کا مرتکب ہو،یا حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کی صحابیت کا منکر ہو،یا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے خدائی صفات مانتا ہو،یا وہ یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام سے وحی لانے میں غلطی ہوئی ہے تو ایسا شخص مسلمان نہیں،ایسے شخص کو مسلمان قرار دینے والا واضح غلطی پر ہے اور اگر وہ ان عقائد کو درست سمجھ کر اسے مسلمان کہہ رہا ہو تو وہ خود بھی ان عقائد کی وجہ سے مسلمان نہیں رہ سکتا۔

حوالہ جات
"بدائع الصنائع " (3/ 8):
"ولو قال إن فعل كذا فهو يهودي أو نصراني أو مجوسي أو بريء عن الإسلام أو كافر أو يعبد من دون الله أو يعبد الصليب أو نحو ذلك مما يكون اعتقاده كفرا فهو يمين استحسانا والقياس أنه لا يكون يمينا وهو قول الشافعي.
وجه القياس أنه علق الفعل المحلوف عليه بما هو معصية فلا يكون حالفا كما لو قال إن فعل كذا فهو شارب خمرا أو آكل ميتة.
وجه الاستحسان أن الحلف بهذه الألفاظ متعارف بين الناس فإنهم يحلفون بها من لدن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إلى يومنا هذا من غير نكير ولو لم يكن ذلك حلفا لما تعارفوا لأن الحلف بغير الله تعالى معصية فدل تعارفهم على أنهم جعلوا ذلك كناية عن الحلف بالله - عز وجل - وإن لم يعقل.
وجه الكناية فيه كقول العرب لله علي أن أضرب ثوبي حطيم الكعبة إن ذلك جعل كناية عن التصدق في عرفهم وإن لم يعقل وجه الكناية فيه كذا هذا، هذا إذا أضاف اليمين إلى المستقبل فأما إذا أضاف إلى الماضي بأن قال هو يهودي أو نصراني إن فعل كذا لشيء قد فعله فهذا يمين الغموس بهذا اللفظ ولا كفارة فيه عندنا لكنه هل يكفر؟ لم يذكر في الأصل وعن محمد بن مقاتل الرازي أنه يكفر لأنه علق الكفر بشيء يعلم أنه موجود فصار كأنه قال هو كافر بالله وكتب نصر بن يحيى إلى ابن شجاع يسأله عن ذلك فقال لا يكفر وهكذا روي عن أبي يوسف أنه لا يكفر وهو الصحيح لأنه ما قصد به الكفر ولا اعتقده وإنما قصد به ترويح كلامه وتصديقه فيه ولو قال عصيت الله إن فعلت كذا أو عصيته في كل ما افترض علي فليس بيمين لأن الناس ما اعتادوا الحلف بهذه الألفاظ".
"الدر المختار " (3/ 718):
"واختلف في كفره (و) الأصح أن الحالف (لم يكفر) سواء (علقه بماض أو آت) إن كان عنده في اعتقاده أنه (يمين وإن كان) جاهلا. و (عنده أنه يكفر في الحلف) بالغموس وبمباشرة الشرط في المستقبل (يكفر فيهما) لرضاه بالكفر".
"الفتاوى الهندية" (2/ 54):
"ولو قال: إن فعل كذا فهو يهودي، أو نصراني، أو مجوسي، أو بريء من الإسلام، أو كافر، أو يعبد من دون الله، أو يعبد الصليب، أو نحو ذلك مما يكون اعتقاده كفرا فهو يمين استحسانا كذا في البدائع.
حتى لو فعل ذلك الفعل يلزمه الكفارة، وهل يصير كافرا اختلف المشايخ فيه قال: شمس الأئمة السرخسي - رحمه الله تعالى -: والمختار للفتوى أنه إن كان عنده أنه يكفر متى أتى بهذا الشرط، ومع هذا أتى يصير كافرا لرضاه بالكفر".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

28/ذی قعدہ 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے