021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زندگی میں اولاد کے درمیان جائیداد تقسیم کرنا
80548ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

ایک شخص زندگی میں اپنے ورثاء کے درمیان اپنی جائیداد کی رقم تقسیم کرنا چاہتا ہے، جس کی موجودہ مالیت 580000روپے ہے، وارثین میں ایک مطلقہ بیوی ہے، جس نے طلاق کے بعد آگے نکاح بھی کر لیا ہے، اس کے علاوہ تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے، کیا یہ بیوی وارث ہو گی یا نہیں؟ نیز بیٹے اور بیٹی کے درمیان تقسیم کس طرح ہو گی؟ یہ بھی بتایے کہ کیا یہ شخص کل یا بعض مال اللہ کے راستے میں وقف کر سکتا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 زندگی میں اپنی جائیداد اولاد کو دینا  دراصل ہبہ (گفٹ) ہے نہ کہ میراث۔  اورہبہ کے بارے میں اگرچہ شرعاً اور قانوناً والد کو یہ اختیار ہے کہ آدمی جتنی جائیداد چاہے اولاد کو دے اور جتنی چاہے اپنے پاس رکھے، اولاد باپ کو اس کے مال میں سے کوئی حصہ  دینے پر مجبور نہیں کر سکتی، کیونکہ زندگی میں ہر شخص اپنے مال و جائیداد کا خود مالک ہوتا ہے، تاہم اگروالدزندگی میں اولاد کے درمیان اپنا مال تقسیم کرنا چاہے تو اس بارے میں شریعت کا اصول  یہ ہے کہ سب اولاد کو برابر حصہ دے یا کم از کم بیٹیوں کو بیٹوں کی بنسبت  آدھا حصہ دے، لیکن اگر کسی بیٹے یا بیٹی کی خدمت، دینداری یا مالی حالت کی تنگی کی بنیاد پر اس کو کچھ حصہ زیادہ دےدیا جائے تو اس کی بھی گنجائش ہے، بشرطیکہ دیگر ورثاء کو محروم کرنے کا ارادہ نہ ہو۔

اس اصول کو پیشِ نظررکھ کر آپ جتنا چاہیں اپنے بیٹوں اور بیٹی کے درمیان مکان تقسیم کر سکتے ہیں اور جتنا چاہیں اللہ کے راستے میں وقف کر سکتے ہیں، البتہ اگر آپ کی اولاد محتاج ہو تو اس صورت میں ایک تہائی سے زیادہ جائیداد اللہ کے راستے میں وقف نہ کرنا بہتر اور اولی ہے، تاکہ بقیہ دو تہائی جائیداد سے اولاد فائدہ حاصل کر سکے اور مسلمان  اولاد کی ضرورت کے پیشِ نظر مال چھوڑنے پر بھی آپ کو اجر ملے گا۔

باقی آپ کی مطلقہ بیوی آپ کی جائیداد میں سے کسی حصہ کی حق دار نہیں ہے، کیونکہ بظاہر اس نے عدت گزرنے کے بعد آگے نکاح کیا ہے اور عدت گزر جانے سے نکاح (خواہ حالت مرض الوفات میں طلاق دی گئی ہو یا حالتِ صحت میں) بالکلیہ ختم ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے فریقین کے درمیان وراثت وغیرہ کا تعلق بھی ختم وہ جاتا ہے۔

حوالہ جات
موطأ مالك ت الأعظمي (4/ 1106) مؤسسة زايد بن سلطان، الإمارات:
 مالك عن ابن شهاب عن عامر بن سعد بن أبي وقاص، عن أبيه؛ أنه قال: جاءني رسول الله صلى الله عليه وسلم يعودني عام حجة الوداع. من وجع اشتد بي. فقلت: يا رسول الله قد بلغ بي من الوجع ما ترى. وأنا ذو مال. ولا يرثني إلا ابنة لي. أفأتصدق بثلثي مالي؟قال  رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا».فقلت: فالشطر؟
قال: «لا». ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الثلث. والثلث كثير. إنك أن تذر ورثتك أغنياء، خير من أن تذرهم عالة يتكففون الناس. وإنك لن تنفق نفقة تبتغي بها وجه الله، إلا أجرت. حتى ما تجعل في في امرأتك».
الفتاوى الهندية (4/ 374) دار الفكر، بيروت:
أما تفسيرها شرعا فهي تمليك عين بلا عوض، كذا في الكنز. وأما ركنها فقول الواهب: وهبت؛ لأنه تمليك وإنما يتم بالمالك وحده، والقبول شرط ثبوت الملك للموهوب له ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وأما حكمها فثبوت الملك للموهوب له غير لازم حتى يصح الرجوع والفسخ وعدم صحة خيار الشرط فيها فلو وهبه على أن للموهوب له الخيار ثلاثة أيام صحت الهبة إن اختارها قبل أن يتفرقا۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6/ 127) دار الكتب العلمية، بیروت:
(وأما) كيفية العدل بينهم فقد قال أبو يوسف العدل في ذلك أن يسوي بينهم في العطية ولا يفضل الذكر على الأنثى وقال محمد العدل بينهم أن يعطيهم على سبيل الترتيب في المواريث للذكر مثل حظ الأنثيين كذا ذكر القاضي الاختلاف بينهما في شرح مختصر الطحاوي وذكر محمد في الموطإ ينبغي للرجل أن يسوي بين ولده في النحل ولا يفضل  بعضهم على بعض.وظاهر هذا يقتضي أن يكون قوله مع قول أبي يوسف وهو الصحيح لما روي أن بشيرا أبا النعمان أتى بالنعمان إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال إني نحلت ابني هذا غلاما كان لي فقال له رسول الله - صلى الله عليه وسلم - كل ولدك نحلته مثل هذا فقال لا فقال النبي- عليه الصلاة والسلام - فأرجعه وهذا إشارة إلى العدل بين الأولاد في النحلة وهو التسوية بينهم ولأن في التسوية تأليف القلوب والتفضيل يورث الوحشة بينهم فكانت التسوية أولى ولو نحل بعضا وحرم بعضا جاز من طريق الحكم لأنه تصرف في خالص ملكه لا حق لأحد فيه إلا أنه لا يكون عدلا سواء كان المحروم فقيها تقيا أو جاهلا فاسقا على قول المتقدمين من مشايخنا وأما على قول المتأخرين منهم لا بأس أن يعطي المتأدبين والمتفقهين دون الفسقة الفجرة۔
الهداية في شرح بداية المبتدي (2/ 251) دار احياء التراث العربي – بيروت:
وإذ طلق الرجل امرأته في مرض موته طلاقا بائنا فمات وهي في العدة ورثته وإن مات بعد انقضاء العدة فلا ميراث لها " وقال الشافعي رحمه الله لا ترث في الوجهين لأن الزوجية قد بطلت بهذا العارض وهي السبب ولهذا لا يرثها إذا ماتت ولنا أن الزوجية سبب إرثها في مرض موته والزوج قصد إبطاله فيرد عليه قصده بتأخير عمله إلى زمان انقضاء العدة دفعا للضرر عنها وقد أمكن لأن النكاح في العدة يبقى في حق بعض الآثار فجاز أن يبقى في حق إرثها عنه بخلاف ما بعد الانقضاء لأنه لا إمكان والزوجية في هذه الحالة ليست بسبب لإرثه عنها فتبطل في حقه خصوصا إذا رضي به " وإن طلقها ثلاثا بأمرها أو قال لها اختاري فاختارت نفسها أو اختلعت منه ثم مات وهي في العدة لم ترثه " لأنها رضيت بإبطال حقها والتأخير لحقها وإن قالت طلقني للرجعة فطلقها ثلاثا ورثته لأن الطلاق الرجعي لا يزيل النكاح فلم تكن بسؤالها راضية ببطلان حقها.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

یکم ذوالحجہ 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب