021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اپنے بیٹے کو مکان ھبہ کرنے کاحکم
80554ہبہ اور صدقہ کے مسائلکئی لوگوں کو مشترکہ طور پرکوئی چیز ہبہ کرنے کا بیان

سوال

السلام علیکم میرا جو گھر ہے اس کی زمین صرف  میری دادی جان کے نام پر تھی ،اس کے علاوہ مکان کی تعمیر و ترقی پر جو بھی خرچہ آیا وہ ہم نے خود کیا ہے ، ہم 30 سال سے اس مکان  پر رہ رہے ہیں ،دادی جان میری ،میرے والد صاحب ﴿جو کہ سب سے چھوٹے بیٹے تھے﴾ کے ساتھ رہتی تھی ، میرے والد صاحب کی کوئی سرکاری ملازمت نہیں تھی اور کاروباری طور پر بھی وہ سیٹ نہیں تھے، وہ کافی غریب تھے دوسرے بھائیوں کی نسبت ۔دوسرے بھائی مالی لحاظ سے بہتر تھے ، میری دادی جان کا یہ فیصلہ تھا کہا یہ گھر میں اپنے بیٹے کو ہبہ کرتی ہوں  یہ میرے  چھوٹے بیٹے کا  ہے ، صرف وجہ یہ تھی  میرے والد صاحب کے حالات  اچھے نہیں تھے، دوسری  وجہاپنی والدہ کی  خدمت گذار بھی تھے ،دادی جان کا یہ فیصلہ کسی کو نقصان پہنچانے کی نیت سے نہیں تھا   ۔ دادی جان نے ایک سٹام پیپر پر بھی لکھ کے دے دیا تھا آج تک ہم اسی گھر میں رہ رہے ہیں ، اور قبضہ بھی شروع سے ہمارا ہے،  اس کے علاوہ تمام خاندان والے بھی اس بات کے گواہ ہیں جس وقت یہ سب کچھ ہوا اس وقت  رجسٹری ہمارے پاس موجود نہیں تھی ،اگر رجسٹری ہمارے پاس ہوتی تو وہ والد صاحب کے نام کروا دیتی   ہم نے بینک سے لون لیا تھا  ،ہماری رجسٹری بینک میں چلی گئی ابھی اسی دوران دادی جان کی وفات ہوگئی اب پندرہ سال  کے بعد ہم نے جب بینک کا لون وہ بھی خود ادا کیا تو رجسٹری ہمارے پاس آگئی ،رجسٹری اس ٹائم دادی جان کے نام پر تھی  وہ رجسٹری بذریعہ انتقال ہم نے اپنے نام پر کروا دی ۔۔جس ٹائم رجسٹری ہمارے پاس آئی بذریعہ انتقال اپنے نام کروائی اس ٹائم میرے والد صاحب اور ان کے بھائیوں میں سے کوئی بھی زندہ نہیں تھا ،جیسا کہ آپ کو بتایا کہ صرف  زمین دادی جان کے نام پر تھی اور شروع سے ہی اس کی تعمیر و ترقی پر ہم نے پیسے خرچ کیے اور قبضہ بھی ہمارا ہے ۔

 آپ مجھے یہ بتائیں  کہ میری دادی  نے  جو پلاٹ  اپنے  بیٹے کو ھبہ کردیا ہے  تو یہ ھبہ مکمل ہوچکا ہے یانہیں ؟

آپ  کے سوال میں چند  امور  قابل تنقیح  ہیں ان تنقیحات کانمبروار جواب آنے  کے  بعد ہی آ پ  کے  سوال  کا  جواب دیا دیاجائےگا۔

تنقیحات از دارلافتا ء

1.دادی نے پلاٹ کس مہینہ وتاریخ میں ہبہ کیاتھا؟

2. آپ کوپلاٹ کاقبضہ کب دیاگیاتھا؟ قبضہ دلانے کے ساتھ پلاٹ کے کاغذات بھی دیئے گئے تھے؟

3. مکان کی تعمیر دادی نے کروائی تھی یاآپ کے والد نے؟

4. بینک سے قرض کس نے لیاتھااور ادائیگی کس کے ذمہ لازم تھی؟

5. جب مکان کی تعمیر مکمل ہوئی اور آپ نے اس میں رہناشروع کیاتو اس وقت دادی جان حیات تھیں یافوت ہوچکی تھیں؟

سائل  کی طرف  سے  موصول  شدہ  جوابات

1. یہ گھرتین سال تک زیر تعمیر تھا۔1991 سے 1993 تک اس دوران دادی جان ہمارے ساتھ دوسرے گھر میں رہائش پذیر تھی۔یہ ھبہ اس دوران کیا گیا ہے  یا دادی جان جب ہمارے ساتھ اس گھر میں آچکی یا تب کیا گیا ہے یہ بات کنفرم نہیں ہو پا رہی۔والدہ محترمہ کو بھی کچھ یاد نہیں ہے۔

2۔جس ٹائم اس گھر کی کی ڈی پی سی ہو گئی تھی۔تو اس پلاٹ پر مکان بنانے کے پیسے نہیں تھے ہمارے پاس ، تو رجسٹری بینک میں دیکھ کر وہاں سے لون لیا تھا۔رجسٹری بینک میں کیوں کرچلی گئی تھی۔رجسٹری اپنے  پاس ہوتی تو دادی جان نام کروا جاتی۔

3. گھرکی تمام تر تعمیر و ترقی ہم نے ہی کی۔بس بینک سے جو لون لیا گیا وہ دادی جان نے اپنے نام پر لیا تھا۔اس کی ایک وجہ رجسٹری دادی جان کے نام پر تھی۔دوسری وجہ دادی جان بیوہ تھی تو بیوہ سے قرض پر سود نہیں لیا جاتا تھا۔

4 بینک سے قرض دادی جان نے اپنے نام پر لیا  تھا اور ادائیگی ہم نے کی تھی 2014 میں ۔

5. دادی جان جس وقت اس گھر میں میں آ گئی تھی۔اس کے چار سے پانچ سال بعد ان کی وفات ہوئی تھی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زندگی  میں  اولاد میں سے  کسی کو  مال  دینا شرعا  اس کا حکم  ھبہ کا ہے ،اس میں  اصل حکم  یہ ہے کہ  لڑکے  اور  لڑکیوں کو  برابر  مال دیاجائے ،دینداری  ،خدمت گذاری  اوراحتیاج  جیسے  کسی وجہ ترجیح کے بغیر  مال  دینے میں اولاد میں سے کسی  ایک کو  دوسروں  پر ترجیح  نہ دیجائے ۔ دیگر ورثاء کو  نقصان  پہچانے کی نیت  سے سارامال کسی ایک کو  دیدینا  دوسروں کومال سے  بالکل محروم  رکھنا گناہ  ہے،اور شرعا ھبہ مکمل  ہونے کے لئے ضروری  ہےکہ جس  بیٹا یا بیٹی کو  مال  دیا گیا  ہے  اس کو  باقاعدہ  قبضے میں دیکر  مالک  بناکر اس کے حوالے کردیا جائے ۔

لہذا  صورت مسئولہ  میں آپ سے کئے گئے سوالات کے  جوابات  اور  ساتھ  ہی منسلکہ  اسٹامپ پیپر کی  تحریر  سے اندزہ  ہوا کہ  آپ کی  دادی  جان نے  یہ پلاٹ   آپ کے والدجناب  مسعود صاحب کو  ھبہ  کرکے  مالکانہ  قبضہ دیکر  ان کے حوالے نہیں  کیاتھا ،بلکہ   یہ اسٹامپ  ایک  مختار  نامہ  ہے  بینک سے  قرض  کی وصولی  اور مکان  کی  تعمیر  کا   ، کیونکہ   اسٹامپ  پیپر میں  قطعی اور فوری  ھبہ  کاذکر نہیں  ہے، اس  تحریر   کی رو سے  ھبہ  مکمل  نہیں  ہوا،بعد  میں جب  دادی  کی  لی  ہوئی  قرض  کی رقم  سے مکان  تیار ہوا تو  دادی بھی آپ کے والد  کے ساتھ اس میں رہتی  رہیں، اس دوران مکان کی رجسٹری  بھی  دادی کے نام تھی ،لہذا  اس وقت بھی قبضہ وتخلیہ  نہیں پایا گیا  نہ ہی کاغذات آپ کے والد کے حوالے کئے گئے،نہ ہی مکان ان کے  نام کردیا گیا، چنانچہ اس صورت میں  نہ قانونی طور پر قبضہ مکمل ہوا  نہ ہی عرفی طور پر اور اس حالت میں  آپ کی دادی  کی وفات ہوئی ہے،لہذا  س صورت حال میں مذکورہ مکان  کا حکم یہ ہے کہ   مکان  تو  آپ کی دادی  جان کا ہوگا ،اس کی تعمیر  میں  آپ کے  والد اور آپ  اور آپ  کے دیگربھائیوں  نے جو  رقم لگایا   ہے  وہ  اس مکان پر قرض  ہے ، مکان کی قیمت لگاکر پہلے اس سے  قرض  وصول  کرلیاجائے  ،اس کے بعد بقیہ  رقم   مرحومہ کے  ترکے میں شامل  کرکے   ان  کےورثاء میں شرعی  قانون  کے مطابق  تقسیم  کیاجائے گا،اس ترکے  میں سے   آپ کے  والد مرحوم  کو بھی  حصہ   ملے  گا۔  اس کے  علاوہ  مرحومہ  کی ملک  میں  سونا  چاندی  کے زیورات ،نقدی  اور  دیگر  چھوٹا بڑا جو بھی سامان   تھا   اس  میں بھی مرحومہ  کےتمام  ورثا ء  کا حق ہوگا ۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 747)
(عمر دار زوجته بماله بإذنها فالعمارة لها والنفقة دين عليها) لصحة أمرها (ولو) عمر (لنفسه بلا إذنها العمارة له) ويكون غاصبا للعرصة فيؤمر بالتفريغ بطلبها ذلك (ولها بلا إذنها فالعمارة لها وهو متطوع) في البناء فلا رجوع له ولو اختلفا في الإذن وعدمه، ولا بينة فالقول لمنكره بيمينه، وفي أن العمارة لها أو له فالقول له لأنه هو المتملك كما أفاده شيخنا
﴿قوله كما أفاده شيخنا) أي الرملي في حاشية المنح وقال بعده: لكن ذكر في الفوائد الزينية من كتاب الغصب إذا تصرف في ملك غيره، ثم ادعى أنه كان بإذنه فالقول للمالك إلا إذا تصرف في مال امرأته، فماتت وادعى أنه كان بإذنها، وأنكر الوارث فالقول للزوج كذا في القنية اهـ.
 الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 690)
(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) والأصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها،وإن شاغلا لا، فلو وهب جرابا فيه طعام الواهب أو دارا فيها متاعه، أو دابة عليها سرجه وسلمها كذلك لا تصح وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط لأن كلا منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به لأن شغله بغير ملك واهبه لا يمنع تمامها كرهن وصدقة لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية        

احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

دارالافتاء جامعة الرشید     کراچی

 ۲ذی الحجہ ١۴۴۴ھ        

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب