021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کسی کا ذاتی نمبر انٹرنیٹ سے اس کی اجازت کے بغیرحاصل کرکے اس پر اپنی خدمات بیچنے کےلیے رابطہ کرنا
80535جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

    میں ایک فری لانسر ہوں اور اپنے متعلقہ گاہکوں تک پہنچنے کے لیے ایک تکنیک استعمال کرتی ہوں، تکنیک کچھ اس طرح سے ہوتاہے کہ ہم مختلف ٹولز یا سوفٹ وئیرز کو استعمال کر کے مختلف ویب سائٹس کے لوگوں کے رابطہ نمبرز یا gmail accounts تلاش کرتے ہیں(ایسا اس لیےکرتےہیں کہ ویب سائٹس پررابطے کے لیے ایک ہی gmail accountیعنی رابطہ نمبر درج  ہوتا ہےجبکہ ہمارے ٹولز کے استعمال سے تمام افراد جو اس ویب سائٹ سے منسلک ہوتے ہیں انکے رابطہ نمبرزہمیں  مل جاتے ہیں جو انہوں نےویب سائٹ پر ظاہر نہیں کیے ہوتے ہیں،ماسوائےایک کے ،زیادہ سے زیادہ افراد کے رابطے تلاش کرنے کامقصدیہ  ہوتاہے کہ ان افراد سے رابطہ کیا جائے اور انہیں قائل کیا جائے تاکہ وہ ہماری خدمات خریدنے کے حوالے سےفیصلہ کر سکیں،کیونکہ اکثر جس کا رابطہ نمبرویب سائٹ پردرج ہوتاہے وہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا کہ سروس حاصل کی جائے یا نہیں،لہذا ہم خودان سے رابطہ کرتے ہیں، ان سے جب رابطہ کیا جاتاہے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا حالانکہ ان کے ایسےرابطہ نمبرز تلاش کر کےہم ان تک ہم پہنچتےہوتے ہیں جو انہوں نے ظاہر نہیں کیے ہوتےہیں پھر اگر وہ راضی ہوں تو ہماری متعلقہ کام کے لیے سروس حاصل کرلیتے  ہیں تومیرا سوال اس حوالے سے یہ ہے کہ

کیا اس طرح سے گاہکوں کے رابطے تلاش کرکےان کواستعمال میں لانااوران  تک رسائی حاصل کرناجائز ہے یانہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ گاہکوں کے ایسے رابطے نمبرزجو انہوں نےویب سائٹ پر شو نہیں کئے ہوتے ان کے پرسنل ڈیٹاکے زمرے میں آتے ہیں اوراورکسی کاپرسنل ڈیتااس کی اجازت کے بغیراستعمال کرناشرعاًاورقانونا منع ہے،شرعاً یہ عمل کسی کے گھر میں بلا اجازت جھانکنے کے مثل ہے، جس کی ممانعت قرآن و احادیث میں آئی ہے۔

نادرا نے شہریوں کی ذاتی معلومات کے یقینی تحفظ کے لیے ایک نئی سروس "اجازت آپ کی" بھی متعارف کرا ئی ہے،چیئرمین نادرانےاس پروگرام کے حوالے سے کہاہے کہ اس نئے نظام کی بدولت مصنوعات یا خدمات فراہم کرنے والے اداروں کو کسی بھی شہری کی ذاتی معلومات استعمال کرنے سے پہلے شہری کے موبائل نمبر پر بھیجے گئے ضروری پاس کوڈ لے کر اس کی رضامندی حاصل کرناہوگی﴿[1]﴾۔لہذا گاہک کو میسج کرکے اس سے کوڈ معلوم کئے بغیراس کے پرسنل ڈیٹے کو استعمال کرناقانونا منع ہوا اورجائز حکومتی قانون کی مخالفت شرعاًبھی جائزنہیں ہوتی۔نیز کسی کے پرسنل ڈیٹااستعمال کرنے سےاس کے ہیک ہونے کابھی خطرہ رہتاہے جیسے کہ بعض میڈیا رپورٹ میں آیاہے کہ اسرائیلی ہیکرزشوشل میڈیاسے پاکستانیوں کا ڈیٹاہیک کررہے ہیں اوراس حواسے مرکزی حکومت نے صوبائی حکومتوں کو انتباہ بھی جاری کیاہے﴿[2]﴾۔

 


﴿١﴾ https://www.dawnnews.tv/news/1198024

﴿۲﴾ https://urdu.arynews.tv/israeli-hackers-are-active-in-stealing-personal-information-of-pakistani-citizens

حوالہ جات
قال اللہ تعالی :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (النور الآیة: 27)
عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: اطَّلَعَ رَجُلٌ مِنْ جُحْرٍ فِي حُجَرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِدْرًى يَحُكُّ بِهِ رَأْسَهُ، فَقَالَ: «لَوْ أَعْلَمُ أَنَّكَ تَنْظُرُ، لَطَعَنْتُ بِهِ فِي عَيْنِكَ، إِنَّمَا جُعِلَ الِاسْتِئْذَانُ مِنْ أَجْلِ البَصَرِ»(صحیح البخاری کتاب الاستیذان  ،باب الاستیذان من اجل البصر ج4 ص1752 الطاف اینڈ سنز کراتشی)
هذا إذَا كان الدُّخُولُ لِلزِّيَارَةِ وَنَحْوِهَا فَأَمَّا إذَا كان الدُّخُولُ لِتَغْيِيرِ الْمُنْكَرِ بِأَنْ سمع في دَارٍ صَوْتَ الْمَزَامِيرِ وَالْمَعَازِفِ فَلْيَدْخُلْ عليهم بِغَيْرِ إذْنِهِمْ لِأَنَّ تَغْيِيرَ الْمُنْكَرِ فَرْضٌ فَلَوْ شُرِطَ الْإِذْنُ لَتَعَذَّرَ التغير (بدائع الصنائع ،کتاب الاستحسان ،ج 6،ص500مکتبہ دارالکتب العلمیۃ)
إنما شرع الاستئذان في الدخول لأجل أن لا يقع البصر على عورة أهل البيت ولئلا يطلع على أحوالهم۔۔۔وهذا مخصوص بمن تعمد النظر وإذا وقع ذلك منه من غير قصد فلا حرج عليہ۔(عمدۃالقاری ،کتاب الاستیذان ،باب الاستیذان من اجل البصر ج22ص 239دارالاحیا التراث  العربی)
وفی صحیح البخاری:
عن انس، ان النبي صلى الله عليه وسلم: " كان في بيته فاطلع عليه رجل فاهوى إليه بمشقص فتاخر الرجل " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح. «(صحیح البخاری/الاستئذان 11 (6242)،
صحیح مسلم: (212/2، ط: قدیمی)
عن أبی ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم : من اطلع فی بیت قوم بغیر اذنہم فقد حل لہم ان یفقؤاعینہ۔
مرقاۃ المفاتیح: (75/7، ط: مکتبہ فیصل)
عمل بہ الشافع ، و أسقط عنه ضمان العين، قيل: هذا بعد ان زجرہ فلم ینزجر، وأصح قولیہ انه لا ضمان
مطلقا لإطلاق الحديث، و قال أبو حنيفة : عليه الضمان ، فالحديث محمول على المبالغۃ فی الزجر.
فی الدر المختار وحاشية ابن عابدين  (4/ 264)
طاعة الإمام فيما ليس بمعصية فرض وفی حاشية ابن عابدين تحتہ والأصل فيه قوله تعالى {وأولي الأمر منكم} [النساء: 59] وقال - صلى الله عليه وسلم - «اسمعوا وأطيعوا ولو أمر عليكم عبد حبشي أجدع» وروي «مجدع» وعن ابن عمر أنه  عليه الصلاة والسلام قال «عليكم بالسمع والطاعة لكل من يؤمر عليكم ما لم يأمركم بمنكر» ففي المنكر لا سمع ولا طاعة.

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

 دارالافتاء جامعۃ الرشید

 1/12/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب