021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عشاء کی نماز اول وقت میں پڑھنا
80557نماز کا بیاناوقاتِ نمازکا بیان

سوال

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ!

 کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے ضلع شانگلہ میں دومسجدیں ہیں ایک مسجد میں اذان ونماز صاحبین رحمہما اللہ کے قول کے مطابق ادا کی جاتی ہیں،مثلا عشاء کا وقت صاحبین رحمہمااللہ کے قول کے مطابق8 بجکر 48 منٹ ہے ،جبکہ دوسری مسجد میں امام صاحب رحمہ اللہ  کے قول کے مطابق اذان ونماز ادا کی جاتی ہیں،امام صاحب رحمہ اللہ کے قول کے مطابق عشاء کا وقت 9 بجکر14 منٹ ہے،صاحبین رحمہمااللہ کے قول کے مطابق نماز پڑھنے والے 9 بجے پڑھتے ہیں،اورامام صاحب رحمہ اللہ کے قول پر عمل کرنے والے کہتے ہیں کہ ان کی نماز اور اذان نہیں ہوئی،برائے مہربانی مدلل جواب عنایت فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

عشاء کاوقت شروع ہونے میں ائمہ کرام رحمہم اللہ  کے درمیان اختلاف ہے، صاحبین رحمہما اللہ کے نزدیک عشاء کا وقت شفقِ احمر کے غروب  ہونےکے بعد شروع ہوتاہےجبکہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے ہاں شفقِ ابیض کے غروب ہونےکے بعد شروع ہوتا ہے۔دونوں ہی قول مفتٰی بہ ہیں ، لہذ ا اگرکسی علاقے میں اعذار کی بناء پر لوگ عشاء کی نماز جلدی پڑھنا چاہتے ہیں،تو وہ اگر عشاءِ اول  یعنی صاحبین رحمہما اللہ کے قول کے مطابق اذان اورنماز اداکر لیں تو بلاشک وشبہ ان کی اذان اور نماز درست ہو جائیں گی،البتہ شفقِ احمر کے غروب ہونے سے پہلے اذان اور نماز نہیں ہوتی، کیونکہ شفقِ احمر سےپہلے کسی بھی حنفی فقیہ کے نزدیک عشاء کا وقت شروع نہیں ہوتا،اس لیےوقت سےپہلےہونےکی وجہ سے  اذان اور نماز نہیں ہوں گی ۔

حوالہ جات
وفی الفتاوى الهندية (1/ 53):
تقديم الأذان على الوقت في غير الصبح لا يجوز اتفاقا وكذا في الصبح عند أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله تعالى وإن قدم يعاد في الوقت. هكذا في شرح مجمع البحر الرائق لابن الملك وعليه الفتوى. هكذا في التتارخانية ناقلا عن الحجة وأجمعوا أن الإقامة قبل الوقت لا تجوز. كذا في المحيط.
الفتاوى الھندیة (1/ 54):
ويكره أداء المكتوبة بالجماعة في المسجد بغير أذان وإقامة.
وفی الدر المختار للحصفكي - (1 / 390):
(و) وقت (المغرب منه إلى) غروب (الشفق وهو الحمرة) عندهما، وبه قالت الثلاثة وإليه رجع الامام كما في شروح المجمع وغيرها، فكان هو المذهب (و) وقت (العشاء والوتر منه إلى الصبح).
 ( قوله : و إليه رجع الإمام ) أي إلى قولهما الذي هو رواية عنه أيضا ، وصرح في المجمع بأن عليها الفتوى ، ورده المحقق في الفتح بأنه لا يساعده رواية ولا دراية إلخ .وقال تلميذه العلامة قاسم في تصحيح القدوري : إن رجوعه لم يثبت ، لما نقله الكافة من لدن الأئمة الثلاثة إلى اليوم من حكاية القولين ، ودعوى عمل عامة الصحابة بخلافه خلاف المنقول .قال في الاختيار : الشفق البياض ، وهو مذهب الصديق ومعاذ بن جبل وعائشة رضي الله عنهم .قلت : ورواه عبد الرزاق عن أبي هريرة وعن عمر بن عبد العزيز ، ولم يرو البيهقي الشفق الأحمر إلا عن ابن عمر ، وتمامه فيه .وإذا تعارضت الأخبار والآثار فلا يخرج وقت المغرب بالشك كما في الهداية وغيرها .قال العلامة قاسم : فثبت أن قول الإمام هو الأصح ، ومشى عليه في البحر مؤيدا له بما قدمناه عنه ، من أنه لا يعدل عن قول الإمام إلا لضرورة من ضعف دليل أو تعامل بخلافه كالمزارعة ، لكن تعامل الناس اليوم في عامة البلاد على قولهما ، وقد أيده في النهر تبعا للنقاية والوقاية والدرر والإصلاح ودرر البحار والإمداد والمواهب وشرحه البرهان وغيرهم مصرحين بأن عليه الفتوى .وفي السراج : قولهما أوسع وقوله أحوط ، والله أعلم .[ تنبيه ] قدمنا قريبا أن التفاوت بين الشفقين بثلاث درج كما بين الفجرين فليحفظ..... ( قوله : منه ) أي من غروب الشفق على الخلاف فيه بحر

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

یکم/ذی الحجہ1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب