021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مقروض ملازمین سے وقف فنڈ کے لیے رقم لینا(کمپنی کا اپنے ملازم کو دیۓ گۓ قرضے کی رقم پر تکافل کی مد میں اضافی رقم لینا)
80504وقف کے مسائلقبرستان کے مسائل

سوال

میں ایک پیٹرولیم کمپنی میں کام کرتا ہوں جو گھر بنانے اور گاڑی خریدنے کے لئےاپنے ملازمین کو قرضے کی سہولت دیتی ہے۔کمپنی قرض کی رقم واپس قسطوں میں ملازم کی ماہانہ تنخواہ سے ایک طے شدہ مدت تک کاٹ لیتی ہے۔کمپنی ان ملازمین سے اس قرض پر کوئی سود نہیں لیتی جنہوں نے کمپنی کے ساتھ نوکری کے شرائط میں بغیر سود کاانتخاب (Intrest free option) کیا ہوتا ہے۔ جن ملازمین نےنوکری کے شرائط میں بغير سود کا انتخاب(Intrest free option) نہیں کیا ہوتا ہے ان سے اس قرض پر سود بھی لیا جاتا ہے۔ لیکن کمپنی تکافل کے ماڈل کو سامنے رکھتے ہوئے contribution کے غرض سے تمام قرض لینے والےملازمین سے اس قرض پر معمولی سی اضافی رقم لیتی ہےجوکمپنی کے ایک الگ اکاؤنٹ میں رکھی جاتی ہے۔ کمپنی کسی بھی قرض لینے والے ملازم کی اچانک وفات پر بقایا قرض کی رقم لواحقین سے لینے کے بجائے اس اکا ؤنٹ سے لے لیتی ہے۔اس اکا ؤنٹ کی رقم کو کمپنی کسی اور مقصد کے لئےاستعمال نہیں کرتی۔یہ ایک وقف شدہ اکا ؤنٹ ہےجو صرف اوپر بیان شدہ مقصد کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اگر کسی سال جن ملازمین نے قرض لیا ہے ، ان کی اموات زیادہ ہو جائیں تو کمپنی اس فنڈ میں اپنی طرف سے بھی پیسے شامل کرتی ہے۔ اس contribution کی رقم  ہر اگلے سال کے لئے مختلف ہوتی ہیں جو ہر پچهلے سال قرض لینے والے ملازمین کے مرنے کی تعداد اور ان کےذمہ کمپنی کی بقيہ رقم کو دیکھتے ہوئے طے کی جاتی ہیں۔ اس وقت یہ contribution کی شرح  %0.0359 ہے جبکہ اس وقت مختلف کمپنیوں کی تکافل کہ شرح %20 سے زائد ہے۔ مہربانی کر کے اس سوال کے مطابق قرآن وحدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ کیا ایسا قرض لینا جائز ہے؟

وضاحت: سائل نے بتایا کہ کمپنی نے ابتداء میں باقاعدہ کوئی رقم وقف نہیں کی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ وقف فنڈ کے لیے ضروری ہے کہ ابتداء میں کوئی رقم وقف کی جائے اور چونکہ کمپنی نے ابتداء میں کوئی رقم وقف نہیں کی، لہذا اس فنڈ کی حیثیت وقف فنڈ کی نہیں ہے۔ وقف فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے فنڈ میں موجود رقم اصل مالکان ہی کی ملکیت میں رہے گی جس کی وجہ سے اس پر زکوٰۃ اور وراثت وغیرہ کے تمام احکامات لاگو ہوں گے۔

          وقف فنڈ اس طرز پر نہ ہو کہ وہ صرف فنڈ میں چندہ (Donations)دینے والوں کے لیے مخصوص ہو، یعنی صرف وہی اس فنڈ سے فائدہ اٹھا سکیں بلکہ اس فنڈ میں ضرورت مند ملازمین کو بھی شامل کیا جائے اور ہر سال اُن میں سے چند کی مدد کی جائے۔

          مزید یہ کہ کمپنی چونکہ سودی قرضے بھی مہیا کرتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ کمپنی مستقبل میں مزید سودی قرضے نہ دے اور جو سودی قرضے جاری ہیں ان کی سود کی رقم ختم کردے،اور اگر کمپنی ایسا نہیں کرتی بلکہ سودی قرضے جاری رکھتی ہے تو مذکورہ فنڈ سے سود کی ادائیگی نہ کی جائے ورنہ تمام شرکاء پر سود کی معاونت کا گناہ ہوگا۔

حوالہ جات
حاشية ابن عابدين (4/363-364)
مطلب في وقف الدراهم والدنانير  قوله ( بل ودراهم ودنانير ) عزاه في الخلاصة إلى الأنصاري وكان من أصحاب زفر وعزاه في الخانية إلى زفر حيث قال وعن زفر شرنبلالية
 وقال المصنف في المنح ولما جرى التعامل في زماننا في البلاد الرومية وغيرها في وقف الدراهم والدنانير دخلت تحت قول محمد المفتى به في وقف كل منقول فيه تعامل كما لا يخفى فلا يحتاج على هذا إلى تخصيص القول بجواز وقفها بمذهب الإمام زفر من رواية الأنصاري والله تعالى أعلم وقد أفتى مولانا صاحب البحر بجواز وقفها ولم يحك خلافا اه
قوله ( لأن التعامل يترك به القياس ) فإن القياس عدم صحة وقف المنقول لأن من شرط الوقف التأبيد والمنقول لا يدوم والتعامل كما في البحر عن التحرير هو الأكثر استعمالا وفي شرح البيري عن المبسوط أن الثابت بالعرف كالثابت بالنص

عمر فاروق

دار الافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

۲۸/ذو القعدہ/۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عمرفاروق بن فرقان احمد آفاق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب