021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بینک سے قسطوں پر پلاٹ لینے حکم
80528خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک بندہ جو کےکئی سالوں سے انگلستان میں رہائش پذیر ہے ، وہ اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر بینک کے ذریعے پلاٹ لینا چاہتا ہے۔ جس کی صورت یہ ہے کہ وہ بینک جاکر پلاٹ خریدے گا جس کے پیسے قسطوں میں ادا کرنے ہونگے۔ بینک یہ شرط لگاتا ہے کہ مشتری اس وقت تک پلاٹ کا مالک نہیں بنے گا جب تک وہ اپنے اقساط مکمل ادا نہ کریں۔ مکمل ادائیگی کے بعد بینک پلاٹ حوالے کرے گا ۔ حال یہ ہے کہ وہاں سارا نظام سودی ہے اور اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اب جاننا یہ ہے کہ :

  1. وہ سودی  نظام کے ہوتے ہوئے  قسطوں پر پلاٹ لے سکتا ہے یا نہیں؟
  2. دوسری  بات یہ ہے کہ اس کی کوئی متبادل صورت ہے کہ وہ پلاٹ لے سکے۔
  3. تیسری بات یہ ہے کہ قسطوں کی جو شرط لگائی ہے یہ کیسا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 

بالترتیب سوالات کے جوابات ملاحظہ فرمائیں:

  1. اگر بینک سے مکان لینے کا مطلب یہ ہے کہ بینک  پہلے اپنے لیے گھر خریدتا ہے پھر آپ کو گھر متعین قیمت پر  قسطوں میں  فروخت کرتا ہے  اور آپ ہر ماہ ان قسطوں کی ادائیگی کرتے ہیں تو اس طرح بینک سے گھر لینا جائز ہے۔ اور اگر بینک آپ کو مکان کیلئے محض رقم  قرض دیتا ہے، یعنی  خود  گھر فروخت نہیں کرتا اور نہ گھر  کی ملکیت میں شریک  ہوتا ہے   تو اس صورت میں اگر جتنی رقم بینک نے دی ہے اتنی ہی واپس لیتا ہے  اور تاخیر کے سبب مزید جرمانہ نہیں لگاتا تو اس صورت میں بھی آپ کیلئے اس  بینک سے معاملہ کرنا درست ہے، البتہ اگر اس صورت میں وہ قرض کی  رقم سے زیادہ وصول کرے یا   تاخیر کے سبب جرمانہ لگائے تو دونوں صورتوں میں یہ  سودی قرض کا معاملہ بن جائے گا، چنانچہ آپ کے لئے بینک سے اس طرح کا معاملہ کرنا جائز نہ ہو  گا۔
  2. پہلے سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق اگر بینک سے پلاٹ خریدنے کا معاملہ کیا جائے تو اس طرح معاملہ درست ہوجائیگا۔
  3. بیع مکمل ہونے کے بعد بینک کا اپنی ملکیت کی شرط لگانا فاسد ہے۔کسٹمر بہرحال مالک بن جائیگا۔ البتہ اگر بینک صرف مکان کے کاغذات اپنے پاس ثمن کی وصولی ممکن بنانے کے لیےروک کے رکھتا ہے تو یہ درست ہے۔
حوالہ جات
الهداية في شرح بداية المبتدي:(3/ 24)
قال: "ويجوز البيع ‌بثمن ‌حال ومؤجل إذا كان الأجل معلوما" لإطلاق قوله تعالى: {وأحل الله البيع وحرم الربا} [البقرة:275] وعنه عليه الصلاة والسلام "أنه اشترى من يهودي طعاما إلى أجل معلوم ورهنه درعه". ولا بد أن يكون الأجل معلوما؛ لأن الجهالة فيه مانعة من التسليم الواجب بالعقد، فهذا يطالبه به في قريب المدة، وهذا يسلمه في بعيدها۔
بحوث فی قضایا فقھیۃ معاصرۃ، ط: مکتبۃ دار العلوم کراتشی (1/15 ):
و مما یجب التنبیه علیه هنا: ان ما ذكر من جواز هذا البیع انما هو منصرف الی زیادۃ فی الثمن فی نفسه، اما مایفعله بعض الناس من تحدید ثمن البضاعۃ علی اساس سعرالنقد، وذكر القدر الزائد علی انه جزء من فوائد التاخیر فی الاداء، فانه ربا صراح، وهذا مثل ان یقول البائع: بعتك هذه البضاعۃ بثمانی ربیات نقدا، فان تاخرت فی الاداء الی مدۃ شهر، فعلیك ربیتان علاوۃ علی الثمانیۃ، سواء سماها فائدۃ (Interest) او لا، فانه لا شك فی كونه معاملۃ ربویۃ، لان ثمن البضاعۃ انما تقرر كونه ثمانیۃ، وصارت هذه الثمانیۃ دینا فی ذمۃ المشتری، فما یتقاضی علیه البائع من الزیادۃ فانه ربا لا غیر۔
المعايير الشرعية ، المعيار الشرعي رقم ( ٣) (٩٤ص):
يجوز أن ينص في عقود المداينة؛ مثل المرابحة، على التزام المدين عند المماطلة بالتصدق بمبلغ أو نسبة من الدين بشرط أن يصرف ذلك في وجوه البر عن طريق المؤسسة بالتنسيق مع هيئة الرقابة الشرعية للمؤسسة.
الهداية في شرح بداية المبتدي:(3/ 24)
قال: "ويجوز البيع ‌بثمن ‌حال ومؤجل إذا كان الأجل معلوما" لإطلاق قوله تعالى: {وأحل الله البيع وحرم الربا} [البقرة:275] وعنه عليه الصلاة والسلام "أنه اشترى من يهودي طعاما إلى أجل معلوم ورهنه درعه". ولا بد أن يكون الأجل معلوما؛ لأن الجهالة فيه مانعة من التسليم الواجب بالعقد، فهذا يطالبه به في قريب المدة، وهذا يسلمه في بعيدها۔

عنایت اللہ عثمانی

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

02/ذی الحجہ/ 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عنایت اللہ عثمانی بن زرغن شاہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب