021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نکاح ِ مسیار کا حکم
80565نکاح کا بیاننکاح کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ :

کسی شخص نے نکاح ِمسیار کیا ہو( جس میں نان ونفقہ اور بچوں کی افزائش کی کوئی ذمہ داری نہیں لی )لیکن عمر بھر نکاح کا ارادہ تھا ،طلاق کی کوئی سوچ نہیں تھی ،ایسے میں اگر وہ شخص اپنی بیوی کو غصے میں طلاق دیتا ہے تو ایسے شخص سے دوبارہ شرعی نکاح( جس میں نان و نفقہ اور بچوں کی پیدائش کا حق ہو)  ہو سکتا  ہے؟اور کیا اس میں بھی حلالہ کی شرط ہو گی؟

وضاحت :

  1. سائل نے بذریعہ فون بتایا کہ صرف لڑکی اور لڑکے کے درمیان یہ طےتھا کہ جب تک لڑکا کراچی میں ہے اس وقت تک یہ نکاح رہے گااس کے بعد یہ نکاح ختم ہوجائے گا۔
  2. شوہر مختلف اوقات میں تین طلاق کا حق استعمال کر چکا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ نکاح کی مشروعیت کا مقصد صرف نفسانی خواہش کی تکمیل نہیں، بلکہ بچوں کی پیدائش اور پرورش کر کے نسلِ انسانی کی بقا اور حفاظت جیسے عظیم مقاصد کے حصول کے لیے نکاح کو مشروع کیا گیا اور انہی مقاصد کے حصول کے لیے انسان میں طبعی خواہش کا مادہ پیدا کیا گیا۔ لہٰذا جہاں کہیں یہ مقاصد فوت ہو رہے ہوں تو وہ نکاح شرعاً جائز نہیں ہوگا، یہی  وجہ ہے کہ متعہ اور نکاح ِ مؤقت کو شریعت میں ممنوع قرار دیا گیا ہے۔

چونکہ نکاح ِ مسیار  سے زوجین کا مقصودنسل انسانی کی  افزائش اور بقا و حفاظت نہیں ہوتی بلکہ محض اپنی خواہش کی تکمیل ہوتی ہے، نیز اس میں نکاح کرتے وقت مرد کی نیت  کچھ عرصہ بعد طلاق دینےکی ہوتی ہے اگر چہ زبان سے اس کا تذکرہ نہیں کرتا،اس لیے  نکاح موقت کے ساتھ اس کی مشابہت پیدا ہونے کی وجہ سے یہ شرعاً ممنوع ہے،اس کے علاوہ اس میں بلاوجہ بیوی کو طلاق دینا ہوتا ہے جو اللہ تعالی کے ہاں حلال چیزوں میں سب سے مبغوض ترین چیز ہے،اس لیے ان مفاسد کی وجہ سے اس کی شرعاً اجازت نہیں دی جاسکتی، تاہم اگر کسی نے دو گواہوں کی موجودگی میں باقاعدہ ایجاب و قبول کرلیا ہو اور بوقت عقد نکاح کے مؤقت ہونے کی کوئی شرط نہ لگائی گئ ہو اور نہ ایجاب و قبول میں نکاح مسیار کی تصریح کی گئ ہو تو اب یہ نکاح شرعاً منعقد ہوگا، البتہ بلاضرورت طلاق دینا جائز نہ ہوگا۔

 سوال میں  ذکر کی گئ صورت میں زوجین نے باقاعدہ گواہان کی موجودگی میں نکاح کیا اور بوقت ِعقد  وقت کی کوئی شرط نہیں لگائی گئی، بلکہ میاں  بیوی کے درمیان آپس میں  یہ طے تھا کہ جب تک شوہر کراچی میں مقیم ہے اس وقت تک یہ نکاح بر قرار رہے گا،لہذا شرعاً یہ نکاح منعقد ہو چکا ہے،لیکن ایساکرناخلاف سنت اورمقاصد شریعہ کےمنافی ہےا ورنکاح کی شرعی ذمہ داریوں سےفراربھی ہے خصوصاً اس طرح پوشیدہ نکاحوں سے کئی فتنوں کادروازہ کھل سکتاہے،اس لیے اس طرح نکاح کرناناپسندیدہ ہے،اس سےاجتناب کیاجائے،مذکورہ بالاصورت میں شوہر مختلف اوقات میں بیوی کو تین طلاقیں دے کر حرمتِ مغلظہ ثابت کرچکا ہے، جس کے بعد شرعاً رجوع کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے اور حلالہ شرعیہ کے بغیر پہلے شوہر سے نکاح بھی نہیں ہوسکتا۔

حوالہ جات
[البقرة: 230[
 }فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ}
العناية شرح الهداية (3/ 249)
(والنكاح المؤقت باطل مثل أن يتزوج امرأة بشهادة شاهدين إلى عشرة أيام) . والذي يفهم من عبارة المصنف في الفرق بينهما شيئان: أحدهما وجود لفظ يشارك المتعة في الاشتقاق كما ذكرنا آنفا
في نكاح المتعة. والثاني شهود الشاهدين في النكاح الموقت مع ذكر لفظ التزويج أو النكاح وأن تكون المدة معينة (وقال زفر هو صحيح لازم) لأن التوقيت شرط فاسد لكونه مخالفا لمقتضى عقد النكاح، والنكاح لا يبطل بالشروط الفاسدة (ولنا أنه أتى بمعنى المتعة) بلفظ النكاح لأن معنى المتعة هو الاستمتاع بالمرأة لا لقصد مقاصد النكاح وهو موجود فيما نحن فيه لأنها لا تحصل في مدة قليلة (والعبرة في العقود للمعاني) دون الألفاظ؛ ألا ترى أن الكفالة بشرط براءة الأصيل حوالة والحوالة بشرط مطالبة الأصيل كفالة. وقوله (ولا فرق بين ما إذا طالت مدة التأقيت أو قصرت) احتراز عن قول الحسن بن زياد إنهما إن ذكرا من الوقت ما يعلم أنهما لا يعيشان إليه كمائة سنة أو أكثر كان النكاح صحيحا لأنه في معنى التأبيد. وهو رواية عن أبي حنيفة. وجه الظاهر أن التأقيت معين لجهة المتعة، فإن قوله تزوجتك للنكاح ومقتضاه التأبيد لأنه لم يوضع شرعا إلا لذلك ولكنه يحتمل المتعة؛ فإذا قال إلى عشرة أيام عين التوقيت جهة كونه متعة معنى.
بحوث في قضايا فقهية معاصرة (ص: 344)
النكاح بإضمار نية الفرقة:
ما دامت صيغة النكاح لا تتقيد بوقت ولا زمان، وتستوفي الشروط انعقاد النكاح، فإن النكاح منعقد، والتمتع به جائز، وأما ما يضمره المتعاقدان أو أحدهما من نية الفرقة بعد اكتمال مدة ما، فلا أثر له في صحة النكاح غير أنه لما كان النكاح في الشريعة عقدا مؤبدا، فالمطلوب فيه أن يستدام من قبل الزوجين، ولا ينقص إلا عند حاجة شديدة تقتضي ذلك، وإن إضمار نية الفرقة منذ أول الأمر ينافي هذا المقصود، فلا يخلو من كراهية ديانة، فلا يصار إليه لا عند الضرورة من شدة الشبق فرارا من الزنا الحرام.

عدنان اختر

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

02؍ذوالحجہ  ؍۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عدنان اختر بن محمد پرویز اختر

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب