021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زکوة کے نصاب میں کس معیار کے سونا اور چاندی کا اعتبار کیا جائے گا؟
80559زکوة کابیانزکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان

سوال

وجوبِ زکوۃ میں سوناچاندی کس معیار(کیریٹ) والے کو بنایاجائے گا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

وجوبِ زکوة کے سلسلہ میں سونے اور چاندی  کے معیار کی وجہ سے حکم پر کوئی اثر نہیں پڑتا، اس کی تفصیل یہ ہے کہ سونا ہو یا چاندی اس میں ادائیگی کے دن کی قیمتِ فروخت معتبر ہوتی ہے، یعنی اس دن جس قیمت پر دکاندار گاہک سے سونا خریدے اسی قیمت پر زکوة واجب ہو گی اور سونے کے معیار کےکم وبیش ہونے سے سونے کی قیمتِ فروخت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، کیونکہ سونا جس کیرٹ (خواہ انیس، بیس، اکیس، بائیس یا چوبیس کیرٹ) کا بھی ہو اس میں سونے کی قیمتِ فروخت چوبیس کیرٹ (خالص سونے)کے حساب سے ہی لگائی جاتی ہے، کیونکہ دکاندار جب گاہک سے سونا خریدتا ہے تو وہ سونے میں موجود کھوٹ کا اعتبار نہیں کرتا، بلکہ زیور میں خالص چوبیس کیرٹ کے سونے کی جتنی مقدار موجود ہوتی ہے اس کی قیمت گاہک کو ادا کرتا ہے، مثلا: اگر كسی شخص نے بایئس کیرٹ والا ایک تولہ سونا خریدا، جس میں دکاندار نے کھوٹ، پالش، چھیجت(Wastege)، نگینے اور مزدوری شامل کر کے دو لاکھ بیس ہزار روپیہ گاہک سے وصول کیا، اب یہی بائیس کیرٹ والا ایک تولہ سونا جب گاہک دکاندار کو واپس بیچنے کے لیے جائے گا تو دکاندار اس میں سے کھوٹ، پالش، چھیجت(Wastege)، نگینےاور مزدوری وغیرہ نکال کر خالص سونے کے حساب سے گاہک کو تقریباً ایک لاکھ نوے ہزار روپیہ ادا کرے گا، لہذا اب زکوة ایک لاکھ نوے ہزار روپے پر واجب ہو گی، کیونکہ  گاہک کے حق میں یہی اس سونے کی قیمتِ فروخت ہے۔یہی صورت انیس، بیس اور اکیس کیرٹ والے زیور میں ہو گی۔ اوراگر کسی کے پاس خالص چوبیس کیرٹ کا ڈلی کا سونا ہو تو اس کی قیمتِ خرید اور فروخت میں فرق نہیں ہوتا، کیونکہ اس میں کھوٹ، پالش، نگینے اور بناوٹ وغیرہ کا کوئی عمل نہیں ہوتا، اس لیے دکاندار چوبیس کیرٹ کی مکمل قیمت ادا کرتا ہے۔

جہاں تک چاندی کا تعلق ہے تو اس میں بھی دکاندار خریدتے وقت گاہک کو خالص چاندی کی قیمت ہی ادا کرتے ہیں، چاندی میں موجود کھوٹ کا اعتبار نہیں کرتا، بلکہ سونے کی طرح  چاندی میں موجود کھوٹ اور بنانے کی اجرت  وغیرہ نکال کر گاہک کو خالص چاندی کی قیمت  ادا کی جاتی ہے اور اسی قیمت پر زکوة ادا کرنا واجب ہوتا ہے، لہذا سونے اور چاندی کے بنے ہوئے زیورات کی زکوة ادا کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ کسی سنار سے زیور کا ریٹ لگوا کر اس کی ڈھائی فیصد زکوة ادا کر دی جائے۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (2/ 286) دار الفكر-بيروت:
وفي المحيط: يعتبر يوم الأداء بالإجماع وهو الأصح اھ فهو تصحيح للقول الثاني الموافق لقولهما، وعليه فاعتبار يوم الأداء يكون متفقا عليه عنده وعندها (قوله: ويقوم في البلد الذي المال فيه) فلو بعث عبدا للتجارة في بلد آخر يقوم في البلد الذي فيه العبد بحر.
           الفقه الاسلامي وأدلته:( 3/ 1871)دار الفكر - سوريَّة - دمشق :
يقوم التاجر العروض أو البضائع التجارية في آخر كل عام بحسب سعرها في وقت إخراج الزكاة، لا بحسب سعر شرائها.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

3/ذوالحجہ 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب