80585 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
والدین مرحومین کاحصہ تقسیم وراثت کےوقت کیسےنکالاجائےگااورشریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روسےان کاحصہ کابہترین مصرف کیاہوگا؟جس سےان کےلیےصدقہ جاریہ بھی ہوسکےاورآخرت میں خوشنودی کاذریعہ بھی بن سکے/
برائےکرم درجہ بالامعاملات ومسائل کےپیش نظر شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رو سےجوابات سےمستفید فرماکرممنون فرمائیں۔جزاک اللہ خیرا
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
والدین مرحومین کاحصہ الگ سےنکالنےکاشرعی کوئی حکم نہیں ،اس سےمتعلق شرعی حکم یہ ہےکہ اگرمورث (وفات پانےوالےشخص)نےکوئی وصیت کی ہوتوشرعااس کومرنےوالےکےتہائی مال تک پوراکرنالازم ہے،اس سےزیادہ ورثہ پر وصیت کوپوراکرنا لازم نہیں ہوتا،صورت مسئولہ میں اگروالدین نےکوئی وصیت کی ہےتواس کو والدین کےتہائی مال تک اس کوپوراکرناشرعالازم ہوگا،اوراگروصیت نہیں کی توورثہ پران کےنام سےالگ سےکوئی حصہ متعین کرکےصدقہ جاریہ کےطورپر رکھناشرعالازم نہیں،ہاں اگرتمام ورثہ راضی ہوں توباہمی رضامندی سےصدقہ جاریہ کاکوئی طریقہ بھی اختیارکیاجاسکتاہے۔
والدین کےحق میں سب سےبہترصدقہ جاریہ یہ ہےکہ نفلی عبادات،جیسےتلاوت قرآن ،نفلی نمازیاصدقہ وغیرہ کرکےان کےلیےایصال ثواب کیاجائے،اس کےذریعےبھی ان سب کاثواب والدین کوپہنچےگا۔
اوراگرورثہ کی مالی استطاعت ہوتوصدقہ جاریہ کی بہترین صورت وقف کی ہوگی،یعنی ورثہ اپنےذاتی مال میں سےکچھ جائیدادوالدین کےصدقہ جاریہ کےطورپروقف کردیں،مثلا مسجد،مدرسہ یاہسپتال بنادیاجائے،جس کی ضرورت زیادہ ہوتی ہےاورفائدہ لمبےعرصےتک اٹھایاجاسکتاہے۔ایسےعمل کادارومدار حالات پرہوگا،ورثہ اپنی گنجائش کےمطابق کوئی بھی صورت اختیارکرسکتےہیں۔
حوالہ جات
"رد المحتار" 9 / 62:
الأصل أن كل من أتى بعبادة ما ، له جعل ثوابها لغيره وإن نواها عند الفعل لنفسه لظاهر الأدلة ۔( قوله بعبادة ما ) أي سواء كانت صلاة أو صوما أو صدقة أو قراءة أو ذكرا أو طوافا أو حجا أو عمرة ، أو غير ذلك من زيارة قبور الأنبياء عليهم الصلاة والسلام والشهداء والأولياء والصالحين ، وتكفين الموتى ، وجميع أنواع البر كما في الهندية۔۔
"البحر الرائق شرح كنز الدقائق "7 / 379:
فإن من صام أو صلى أو تصدق وجعل ثوابه لغيره من الأموات والأحياء جاز ويصل ثوابها إليهم عند أهل السنة والجماعة كذا في البدائع۔
"سنن أبي داود 2 / 131:
14 - ت / 14 م باب فيما جاء في الصدقة عن الميت:
2880 عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال " إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلا من ثلاثة أشياء منن صدقة جارية أو علم ينتفع به أو ولد صالح يدعو له " . صحيح
محمدبن عبدالرحیم
دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی
04/ذی الحجۃ 1444ھج
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمّد بن حضرت استاذ صاحب | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |