021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تعویذ میں لفظ”یا بدوح” کا استعمال
80598ذکر،دعاء اور تعویذات کے مسائلرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام بھیجنے کے مسائل ) درود سلام کے (

سوال

مجھے میرے بھتیجے نے اپنے مفتی صاحب سے پتہ کرکے بتایا کہ مجھ پر اور میری اہلیہ پر کسی نے جادو کیا ہے۔ ان مفتی صاحب سے میں نے موبائل پر بات کی۔ انھوں نے تجویز کیا کہ میں اور میری اہلیہ ان سے لئے گئے تعویذات کو استعمال کریں ۔ ان میں اکثر الفاظ سمجھ میں نہیں آتے ۔ کچھ کو پانی میں ڈبو کر پینا تھا، کچھ کو کھانا تھا۔ جس کو پانی میں ڈبو کر پینا تھا اس پر الفاظ سمجھ میں آتے ہیں ۔ اس پر "یا بدوح" اور "الوام" کئی بار لکھا ہوا ہے ۔ بنوری ٹاؤن کے فتاویٰ میں فتویٰ نمبر 144008200285 میں لکھا ہے کہ بدوح عبرانی زبان میں اللہ تعالیٰ کا نام ہے۔ میری تحقیق کے مطابق عبرانی Hebrew زبان میں بدوح اللہ تعالیٰ کا نام نہیں ہے ۔ میں کچھ لنک آپ کو ارسال کر رہا ہوں ۔ آپ خود مزید تحقیق فرمائیے اور رہنمائی فرمائیے ۔ میں نے وہ تعویذات جلا دئیے ہیں اور ان کو استعمال نہیں کیا ۔ان تعویذات کی میرے پاس تصاویر موجود ہیں ۔ اگر آپ دیکھنا چاہتے ہیں تو مجھ سے email پر رابطہ کر لیں۔ یوٹیوب اور انٹرنیٹ کے لنک مندرجہ ذیل ہیں:

https:/youtu.be/6fA2Efkhi_M https://youtu.be/YYP0lUWvcmE https://youtu.be/414rsEM2AnQ https://youtu.be/8517WNaUF3w https://youtu.be/A8ZtZRS9nT4

 Fatwa https://www.banuri.edu.pk/readquestion/%D8%AA%D8%B9%D9%88%DB%8C%D8%B0-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DB%8C%D8%A7-%D8%A8%D8%AF%D9%88%D8%AD-%D9%84%DA%A9%DA%BE%D9%86%D8%A7/18-04-2019

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

تعویذ کے شرعاً جائز ہونے کی تین شرائط ہیں:

1۔ کسی جائز مقصد کے لیے ہو۔

2۔ اس کو مؤثر بالذات نہ سمجھا جائے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہی مؤثر حقیقی سمجھا جائے۔

3۔ وہ تعویذ قرآن و حدیث یا اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات پر مشتمل ہو، یا عربی یا کسی اور زبان کے ایسے الفاظ پر مشتمل ہو جن میں کفر و شرک یا گناہ کی بات نہ ہو ۔

اگر مذکورہ شرائط نہ پائی جائیں تو پھر تعویذ کرنا اور پہننا شرعاً ناجائز ہوگا۔

مختلف فتاوی میں علماء کرام کی اس لفظ کے بارے میں رائے ملاحظہ ہوں۔

اسم بدوح کی تحقیق:

سوال:  یا بدوح، یہ کیا اللہ کا نام ہے، جبکہ تلاش کے بعد بھی معلوم نہ ہوسکا؟       

جواب:  یا بدوح، قرآن میں تو یہ نام نہیں ہے، مگر بعض اہل علم نے لکھا ہے کہ عبرانی زبان میں اللہ کا نام ہے۔

( فتاوی عثمانی :1/279)

بدوح‘‘ عبرانی زبان میں اللہ تعالیٰ کا نام ہے،اور تعویذات میں اسماء اللہ لکھنا جائز ہے،لہذا تعویذات میں  یابدوح لکھنے میں کوئی قباحت نہیں۔

لماقال العلامة المفتی محمدشفیع رحمہ اللہ :

احقر نے اپنے استاذ محترم حضرات العلامة مولانا محمد انورشاہ صاحب الکشمیری رحمہ اللہ سے سنا ہے کہ لفظ بدوح بلاتشدیدِ دال عبرانی زبان میں اللہ کا نام ہے۔                                    (فتاوی حقانیہ(2/402)

"بدوح یہ لفظ عام طور پر بضم باء و تشدید دال مشہور ہے،  مگر یہ صحیح نہیں، صحیح لفظ بدوح ہے بفتح باء  و تخفیف دال، تحقیق یہ ہے کہ یہ عربی زبان کا لفظ نہیں، بلکہ عبرانی میں اللہ تعالیٰ کا نام ہے ۔اور اگر عربی قرار دیا جائے تو اس کے معنی عاجز کرنے والے کے ہیں،بہرحال خدا کا نام ہونا ثابت ہے ،تو یا بدوح کا وظیفہ بے تامل جائز ہے۔                                                  ) فتاوی دارالعلوم دیوبند یعنی امداد المفتین:(2/215)

جو لنک آپ نے بھیجے ہیں ،اس ویڈیو میں "بدوح" کو سب سے پہلے عربی لغت کے اعتبارسے جانچا گیاہے، حالانکہ یہ عربی لفظ نہیں ہے،بلکہ عبرانی ہے،عربی لغت سے اس کےمعنی تلاش نہیں کیے جاسکتے۔

پھر گوگل ٹرانسلیٹر کے ذریعہ پہلے اردو میں بدوح  لفظ لکھا گیاہے،پھر اس کے جو معنی عبرانی میں ظاہر ہوئے وہ کاپی کرکے دوبارہ عبرانی سے اردو اور عربی ترجمہ میں لکھا گیا،اس سے معنی شیطان سامنے آئے، اول تو یہ اردو لفظ نہیں تو ابتدامیں اردو سے عبرانی میں کیسے صحیح معنی دے سکتاہے؟دوم گوگل ٹرانسلیٹر پر کس درجہ اعتبار کیاجاسکتا ہے خاص کر جب ایسی زبان کے لفظ کے معنی جاننا مقصود ہوں جو بالکل سمجھ نہیں آتی،دوسری طرف عبرانی ٹو عربی،عبرانی ٹو انگلش اور عبرانی ٹو اردو براہ راست ترجمہ جو نیٹ پر ہوتا ہے  اس کے مطابق ترجمہ " دعا "بنتاہے۔ شیطان نہیں۔

پھر ویڈیومیں یہ حوالہ بھی موجود ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک یہ علم الاعداد کا اپنا حساب ہے،اس کے معنی کچھ بھی نہیں بنتے ۔

اس تمام تر صورتحال میں جب تک یقینی طور پر یہ معلوم نہ ہوکہ اس کے معنی غلط ہیں،اس کے ناجائز ہونے کا حکم نہیں لگایاجاسکتاہے،البتہ اگر کوئی اس سے بچنا چاہتاہے تو اس  میں بھی حرج نہیں ۔   

حوالہ جات
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (4 / 1715):
"(وعن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده - رضي الله عنهم - أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إذا فزع أحدكم في النوم فليقل: أعوذ بكلمات الله التامات من غضبه وعقابه وشر عباده ومن همزات الشياطين وأن يحضرون فإنها لن تضره. وكان عبد الله بن عمرو يعلمها من بلغ من ولده، ومن لم يبلغ منهم كتبها في صك ثم علقها في عنقه») . رواه أبو داود والترمذي وهذا لفظه".
و في الشرح:
(وكان عبد الله بن عمرو) بالواو (يعلمها) أي: الكلمات (من بلغ من ولده) أي: ليتعوذ به (ومن لم يبلغ منهم كتبها في صك) أي: كتاب على ما في النهاية والقاموس، وأغرب ابن حجر لغةً وعرفاً في تفسير الصك بكتف من عظم (ثم علقها) أي: علق كتابها الذي هي فيه (في عنقه) أي: في رقبة ولده، وهذا أصل في تعليق التعويذات التي فيها أسماء الله تعالى".

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

21/ذی الحجہ1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب